یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں

سقوط ڈھاکہ اور 16 دسمبر ۔۔۔ ہمارے وطن عزیز کے دولخت ہونے کی دلخراش داستان۔۔۔جس کے بارے میں بڑوں نے بتایا تھا کہ ” اپنوں کی بے وفائی، ارباب اقتدار کی کرسی پر قابض ہونے کی ہوس ، ہم وطنوں کی بے اعتنائی، اور دشمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا ناگوار مرحلہ مکمل ہوا۔دشمن اسی وقت وار کرتا ہے جب اسے سمجھ ہو کہ اندر دراڑیں پڑ چکی ہیں، ایک مضبوط قلعے کو بڑے سے بڑا اور طاقتور دشمن بھی حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے،جب تک قلعے کے اندر کے لوگ اس دشمن کے ہاتھ اپنا ضمیر فروخت نہ کر دیں اور اپنوں ہی کے ہاتھوں ستائے ہوئے مظلوم و مقہور لوگ دشمن کی ظاہری ہمدردی کو خلوص نہ سمجھ بیٹھیں،تب تک دشمن کے لیے بھی دراڑیں ڈالنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ضمیر فروخت اور طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں پسے ہوئے لوگ جب دشمن کے ہاتھ لگ جائیں تو سمجھ لیجئے کہ ملک کی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ یہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ساری داستان کا عنوان ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ قوم آج تک سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داران کو “جانتے ہوئے” بھی نہ جان سکی ہے نہ پہچان سکی ہے. سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کو کوئی علم نہیں کہ مشرقی پاکستان کی جدائی کا خنجر اس کے سینے میں کس نے گھونپا۔ “حمودالرحمان کمیشن “جیسی رپورٹس کے پڑھنے پر پابندی عائد کر دینا کس طرف اشارہ کرتا ہے اور کس کس مجرم کو بچاتا ہے۔ ان سوالوں کے جوابات تو شاید ہم کبھی نہ تلاش کر سکیں،یا شاید آئندہ آنے والے وقتوں میں کوئی صالح فطرت حکمران ہمیں ایسا نصیب ہو کہ جو ایسا کڑا احتساب کرے جو تمام شرعی تقاضے پورے کرتا ہو اور پاکستان بننے کے پہلے دن سے لے کر اس دن تک کے تمام مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکے اور ان کو کڑی سے کڑی سزا دے سکے۔ اور ایسا کوئی سیاستدان اس ملک میں باقی نہ رہے جو “ادھر ہم ادھر تم” کا فتنہ انگیز نعرہ لگا سکے۔بس پھر اس پر امن ملک میں “ہم ایک ہیں” کا نعرہ گونجتا رہے

لیکن ایسے جنت نظیر وطن کی تعبیر خواب دیکھنے سے نہیں ہوگی اب ضرورت ہے کہ ہم اپنی نادانیوں اور کوتاہیوں اور غیر ذمہ داران رویوں کو چھوڑ دیں، اپنا زاویہ نظر تبدیل کریں،اپنے اندر رہنے والے غداروں کو پہچان لیں،اس وطن کے مخلص اور ایماندار لوگوں کو اپنا راہنما بنائیں جو اس وطن کو گھمبیر مسائل سے نکال کر لے جائے۔اور اس کو ترقی اور کامیابی کی راہ پر لگا سکے۔اور نظریہ پاکستان کی تکمیل کے تقاضے پورے کر سکے۔

جو گزر گیا سو گزر گیا جو چھن گیا سو چھن گیا اب خیال اس کا کرنا ہے جو آنے والا ہے اور جو باقی بچا ہے،ضروری ہے کہ غلطیوں اور کوتاہیوں کو دوبارہ نہ دہرایا جائے جو اس سانحے کی بنیاد بنیں۔ ظلم ناانصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک دشمنوں ،غداروں اور ان ضمیر فروشوں کے چہرے بے نقاب کرنا ہوں گے, جو ہمارے درمیان رہ کے ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں،ان بیرونی وطن دشمنوں کو پہچان لیں جو گدھ کی طرح اس وطن کو نوچتے رہے اور پھر دیار غیر کے کسی سوکھے ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھ کر گردن کندھوں میں دبائے للچائی نگاہوں سے مزید کسی ایسی خوراک کو تلاش کرتے رہتے ہیں جو ان کے پیٹ کا ایندھن بنے۔کبھی یہ بلوچستان کے سنگلاخ میدانوں میں ضمیر فروشوں کو ڈھونڈتے ہیں جو بسوں کو روک روک کر پنجابیوں کی شناخت کر کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں ،اور کبھی یہی بلوچی کراچی میں پنجابیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔!

وطن عزیز کے پیارے لوگو ! خدارا پنجابی پٹھان بلوچی اور سندھی کے جھگڑے مٹا کر ایک ایسی بند مٹھی بن جاؤ جو دشمن کے دانت توڑ کر رکھ دے۔

آہ۔۔۔ افسوس صد افسوس کہ دشمن نے 16 دسمبر کی دردناک تاریخ پر ایک اور داغ سانحہ پشاور کا لگا دیا،آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہمارے معصوم اور ہونہار پھولوں پر گزرنے والی قیامت ہم تاقیامت نہیں بھول سکتے۔ایک ماں کے قلم سے ایسی خونچکاں داستان کی تحریر لکھنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے،خدا کرے کہ ایسا کوئی دسمبر اب ہماری تاریخ میں نہ آئے کہ جب بچے اسکول جائیں اور واپس نہ آئیں۔

حصہ