نوجوان نسل میں منشیات کارجحان اور بےراہ روی

پاکستان میں منشیا ت کا بڑھتا رجحان دراصل معاشرتی بے راہ روی کی وجہ سے  ہے جس معاشرے میں غر بت ، نا انصافی ، میرٹ ، کا قتل عام  ہو وہاں بے راہ روی ، بے مقصد یت جنم لیتی  ہے ذہنی و نفسیا تی اضطرا ب ، خلفشا ر اپنے گہر ے اند و ہنا ک سائے سميت پڑا ؤ ڈال لیتے ہیں ایسا جمو دی تعفن و تعطل جنم لیتا  ہے کہ انسانی تمام صلاحیت پروا ن چڑ ھنے کی بجائے دفن  ہو جاتی ہیں انسان بے راہ روی کا سا ما ن بن جاتا  ہے ایسا ا یندھن جو کہیں سلگ جائے تو پھر سارا سماج انکی لپیٹ میں آ جاتا  ہے۔

ہمارا سب سے بڑا پرابلم جو اس وقت انتہائی سنجیده اور دل دہلا دینے والا  ہے اعداد و شمار کے مطابق نوجوان نسل میں بڑھتا منشیا ت کا اندھا دھند رجحان  ہے جو گھن کی طرح ہمارے زرخیز دماغ چٹ کر رہا  ہے ۔ہمارے ہاں حکومتی سطح پر کوئی مؤ ثر حکمت عملی اور سنجید ہ اقدا ما ت دیکھنے کو نہیں ملے فقط اخبار کی سرخی ، اور کھوکھلی نعرے بازی،  یہی اجتماعی  رويہ ہماری نوجوان نسل کی تباہی کا ذمہ دار  ہے ہمارے کانو ں پر نہ جانے کیوں جوں تک نہیں رینگتی۔

ہمارے ہاں تلخ حقائق یہ ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق 5 سے 6 کروڑ لوگ کسی نہ کسی ، کسی نہ کسی سطح پر ذہنی و نفسياتی عا ر ضے میں مبتلا  ہے۔اس میں اسٹریس ، ڈپریشن ، انزا ئٹی ، اعصا بی تنا ؤ ، اور نا جانے کتنی ان گنت بظا ہر نا نظر آنے والی بیماریاں جسے ہمارے ہاں جن بھوت ، سایہ ، اور بہت سے نام دے کر اصل مرض پکڑ نے سے قا صر  ہے۔

ان امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ،اور اسکے علاوہ گھریلو رو یے ، جھگڑ ے ، نا مناسب القا با ت ، بھی انسانی دماغی صلاحیت کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتا  ہے اس تمام ذہنی گراو ٹی ماحول میں انسانی سوچ و قابلیت پر ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ انسان ایسے نا مناسب حالات میں ذہنی تسکین چاہتا  ہے،  اسکے لئے نشہ وه واحد حل سمجھ کر انسان اس مرض میں ایسا مبتلا  ہوتا  ہے کہ پھر اس راہ نجات سے نجات کبھی ممکن نہیں ہوتی پورا انسان ہی نہیں پورا خاندان ، گھر ، سماج سب کچھ تباہ و برباد  ہو کر رہ جاتا  ہے۔

چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان صاحب نے دوبارہ اس سنگین عوامی مسئلہ کو دوبارہ اجا گر بھی کیا  ہے جو بہت خوش آئند بات  ہے مگر ضرورت اس بات کی  ہے کہ کب اسکو عملی جا مہ پہنا یا جائے جب تک حکومتی سطح پر اقدامات نہ کیے گئے قانون مزید سخت نہ کیا گیا اس دهندے کو فروغ دینے والوں پر شکنجہ سخت نہ کیا گیا یا اس کی پشت پناہی کرنے والے عنا صر کا کڑا احتساب نہ ہوا تو محظ زبانی کلامی کوئی نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

 وقت کی نزاکت ، اور حساسیت کا تقاضا یہی  ہے کہ ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ورنہ یہ قیمتی سرمایہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا  ہے،عوامی اجتماعا ت، ڈسٹرکٹ ، تحصیل ، سٹی سطح پر آگاہی سیمینارز منعقد کر کے شعور دینا ہوگا ترجیحی بنیاد و ں پر اسکا سد باب بہت ضروری  ہے ورنہ یہ لت ہمارا مستقبل سلگا رہی  ہے یہ نا  ہو خبر ہی تب  ہو جب سب کچھ جل چکا  ہو پھر بچے تو صرف پچھتا وا۔