ایک دور جنم لیتا ہے ایک تہذیب فنا ہوتی ہے

An era is born, a civilization is destroyed

حقیقت یہ ہے کہ نیا دور پچھلی تہذیب کی موت ہوتا ہے،تہذیبیں خود کشی کر لیتی ہیں جب نئے دور کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتی ہیں۔تہذیب بہرحال مٹ جاتی ہے،اگر اس کو اپنانے والے چھوڑ جائیں۔

پتھر کی تہذیب سنگ مرمر کے ہاتھوں قنا ہوئی

کچا کھانے اور کچا چبانے کی تہذیب آگ کے ہاتھوں رسوا ہوئی

پتوں سے جسم ڈھانپنے کی تہذیب ریشم کے کیڑے نے فنا کی

رہائش غار قیام خیام اور قیام خیام سکونت مکان نے تباہ کی

نشانہ غلیل کمان کے تیر نے اور تیر کی روانی گولی کی رفتار نے فنا کی۔

آہ۔۔۔!  میرے خراماں رفتار تانگے کی سریلی ٹپ ٹاپ نئے دور کی برق رفتار گاڑیوں کے بے ہنگم شور میں دب کر رہ گئی۔

ہم بھی کیا عجب ہیں کہ کڑی دھوپ کے تلے

صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر

نئے دور کی کونپلیں پرانی تہذیب کی مردہ زمین سے پھوٹتی ہیں،علم کے میدان کو لے لیجئے ،آج سے کچھ دیر قبل کی دنیا اور آج کی دنیا میں زمین و آسمان کا فرق ہے،فلک بوس عمارتیں، ریل گاڑیاں، ٹرانسپورٹ ،ٹیلی فون ،انٹرنیٹ ،فضاؤں میں حکمرانی کرنے والے جہاز، میلوں کا سفر لمحوں میں طے ہو جانا، جدید علوم کا شاخسانہ ہے۔گھوڑے اور اونٹ پر سفر کرنے والا کوئی مسافر آج کی صدی میں لوٹ آئے تو انگشت بدنداں رہ جائے

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

اکیسویں صدی میں کھڑے ہوکر ذرا بارویں صدی میں جھانکئے ،سیدھے سادے نوجوان سادہ لباس اور ٹوپی پہنے ، جھکی ہوئی نگاہوں کے ساتھ ہاتھوں میں کتاب تھامے گلیوں میں چلتے اور بگھیوں میں سوار مدرسوں کو جاتے نظر آتے ہیں اور یہی جوان جب اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں تو کلائی میں کنگن ،کانوں میں بالی اور بالوں میں جیل لگائے گلی کوچوں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

بارہویں صدی کی میری مائیں بہنیں اور بیٹیاں جن کی پہچان عبایا چادر اور چاردیواری تھا جب اکیسویں صدی میں داخل ہوتی ہیں تو دوپٹے سے بےنیاز،چار دیواری کو قید حانہ اور شمع محفل بننے کو فخر محسوس کرتی ہیں۔ اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خیا اور بہترین ثقافت پر مبنی تہذیب فنا ہوجاتی ہے اور بے حیائی بد امنی اور افرا تفری پر مبنی نیا دور جنم لیتا ہے۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

 تہذیب حاضر اور دور قدیم کے درمیان ایک وسیع  پل ہے، کہاں وہ دور کہ شہزادہ سلیم انارکلی کو کبوتر کے ہاتھوں پیغام بھیجتا ہے اور جواب کے انتظار میں نہر کنارے کئی کئی دن کاٹ دیتا ہے، اور آج یہ دور جدید  کہ کبوتروں اور ڈاک کے گھوڑوں کی جگہ موبائل کے میسجز نے لے لی ہے,ادھر خیال آیا میسج لکھا کلک کیا سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے دوست سے آدھی ملاقات ہوگئی،اور اب تو پوری ملاقات بھی مشکل نہیں رہی،ریل اور ہوائی جہاز میں سات سمندر پار کے سفر کو چند گھنٹوں میں سمیٹ دیا ہے بلٹ ٹرین تو نظروں کو بھی مات دی جاتی ہے۔

ریکارڈ کی فائلوں سے بھری دفتری الماریوں کی جگہ انگشت بھر یو ایس بی نے لے لی ہے۔

ستاروں سے منزلیں معلوم کرنے والے آج قطب نما کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے

کچے گھڑوں کی جگہ فریزر سے پانی پیئیں گے، درختوں کی چھاؤں کی ٹھنڈی ہوا کی بجائے اے سی میں رہیں گے ،،،، صحت تو خراب ہو گی۔

ہواؤں کو سونگھ کر مو سموں کی آمد کی خبر دینے کا مزہ مصنوعی سیاروں نے فنا کردیا۔

اکبر ہمارے عہد کا اللہ رے انقلاب

گویا وہ آسمان نہیں وہ زمین نہیں

جی ہاں گھوڑا گاڑی کا گھوڑا گیا، گاڑی رہ گئی

لکڑیاں جلا کر کھانا پکانے والی ماں آج گیس کے چولہے پر روٹی پکاتی ہے مگر اپنے چوکے کی رونق کھو بیٹھی ہے۔

نئی تہذیب سہولتیں لاتی ہے،ترقی کی راہ دکھاتی ہے،مگر بہت کچھ کھو کر۔ گلی ڈنڈا کھیلنے والے بچوں کی سماجی زندگی موبائل گیمز نے تباہ کردی ہے۔

مسجد نبوی کے کچے صحن کی سوندھی خوشبو اپنے ساتھ علمی مجالس کی پختہ خیالی بھی لے گئی،

بیت المقدس کو صلاح الدین ایوبی کی تلوار کی جگہ مذاکرات اور” تسلیم کئے جانے” کے منصوبے سے فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے,طبع آزاد پہ قید رمضان بھاری ہے۔جہاد اب سوشل میڈیا پر ہی کیا جا رہا ہے۔

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی 

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی 

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی 

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

یہ ٹھیک ہے کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے , ترقی کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، فرسودہ روایات سے چمٹے نہیں رہنا چاہیے

دنیا جب مریخ پر جا بسنے کی بات کر رہی ہو ایسے میں ہمیں پتھر کے زمانے کو یاد نہیں کرنا چاہیے

لوگ جب پاستہ اور فرنچ فرائز کھا رہے ہوں ،ہمیں ساگ روٹی کے غم میں آ ہیں نہیں بہانا چاہیئں

لیکن کچھ ایسے اصول ہیں ، زندگی گزارنے کے ایسے گر ہیں جو ہمیں ہر نئے دور کے ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہونگے۔

اسلامی روایات کی پاسداری

بزرگوں کا احترام

 اور حصول علم کی جستجو۔۔۔۔۔

حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے

ایک نیا دور جنم لیتا ہے ایک تہذیب فنا ہوتی ہے