قلب

قلبHeart

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

جسم اعضاء کا مجموعہ ہوتاہے یہ اعضاء اپنے کام کے اعتبار سے اہم ہوتے ہیں جوکہ اپنا اپنا کام کرتے ہیں ایسی طرح جسم کے اندر قلب کا مقام نہایت اہم ہے اس کا شمار ان اعضاء میں ہوتا ہے جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ۔یہ وہ عضو ہے جوکہ جسم میں خون کی روانی کو قائم رکھتاہے اور اس کی مسلسل حرکت زندگی کی نشانی ہے ۔انسان دو چیزوں کے مجموعے کانام ہے اوّل جسم اوردوم روح ۔ قلب کے معنی میں جو سب سے اہم معنی ہے وہ ہے مرکزاور مسلسل حرکت اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی جسم میں قلب اس کا مرکز ہے اور اس کی حرکت بھی انسان کی پیدائش سے موت تک ہے ۔جس طرح انسان کے جسم کا مرکز یہ قلب ہے اسی طرح انسان کی روح کا بھی مرکز یہی قلب ہے جو انسان کے سینے میں دھڑک رہاہے۔

آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ انسان کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب ہے غور سے سنوں وہ دل ہے وہ دل ہے۔اس حدیث نے جسم کے اندر قلب کی اہمیت کو واضح کردیا ہے۔ اس کے معنوی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو یہ مرکز انسان کے جسم کے اندر گوشت کے لوتھڑ ے کی شکل میں موجود ہوتا ہے گویا ایمان کا بیج اسی زمین پر بویا جاتاہے اور تمام اچھائی اور برائی کی آماج گاہ ہوتاہے ہر طرح کی سوچ اس کے اندر پیدا ہوتی ہے ۔بالکل ایسی طرح انسانی معاشرے کا بھی ایک قلب ہوتاہے ۔ معاشرے کا ہر فرد اس کی سوچ اس کی عمل سے متاثر ہوتاہے اس کا حکم سارے معاشرے کے افرا د پر چلتاہے اس کی اچھائیوں سے معاشر ے کا ہر فر د خوشبوں اور راحت محسوس کرتاہے اور اس کی برائیوں سے ہرفرد تعفّن تکلیف محسوس کرتاہے اسی سے معاشرے اور قوموں کا مستقبل وابستہ ہوتاہے یہ قیادت ہوتی ہے جو کہ پورے معاشرے کو اپنے گرد جمع کرتی ہے اور ایک خاص سمت میں لے کر چلتی ہے یہی قیادت دراصل قوم کے ایک ایک فرد اصلاح و تربیت کی زمّہ دار ہوتی ہے اور اسی کے پاس سمت ہوتی ہے کہ قوم کو کس سمت میں لے کر چلناہے ۔جہاں دل کے اندر سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے وہیں سے فیصلے بھی آتے ہیں کہ کس کو اپنے مستقبل کا زمّہ دار بنایاجائے گویا قلب کس کے حوالے کیا جائے اسی کو اگر پاکستان کی قیادت پر قیاس کرلیا جائے کہ قلب کس کے حوالے کردیا گیا ہے تو صورت حال واضح ہوتی ہے کہ آزادی کے حصول کے وقت قیادت کس طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی ان کے سامنے سمت متعین اور واضح تھی یعنی ایسا خطّہ زمین حاصل کرنا جس میں مسلمان اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے اس سمت میں چلنے کے لیے مسلمانان ہند قائد اعظم ؒکے گرد جمع تھے اور علامہ اقبال ؒسے فکری رہنمائی حاصل کررہے تھے ۔قیادت نیک نیتی کے ساتھ اپنا فرض پورا کرتے ہوئے مسلمانان ہند کو منزل تک لے کر آگئی اور ایک ریاست قائم ہوگئی ۔یقینا آزادی کا حصول ایک سنگ میل تھا لیکن اسلامی حکومت کا قیام منزل تھی ۔اللہ کے ساتھ جو عہد باندھا تھا اس میں فتور آگیا اور آزادی کے حصول کو ہی منزل سمجھ بیٹھا اور اسلامی حکومت کا قیام بھول بیٹھے قلب کے اس فتور نے ہمیں منزل سے دور کردیا بار بار مواقع ملنے کے باوجود ہم اپنی منزل کی جانب جانے کے بجائے دور ہوتے گئے ہم نے اپنی ان قیادتوں کا انتخاب کیا جو ہماری منز ل کے کے دشمن تھے وہ تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمن تھے آپ ﷺ نے بالکل سچ فرمایا کہ جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے اور اگر وہ خراب ہے تو ساراجسم خراب ہے۔ غور سے سنو وہ دل ہے وہ دل ہے ۔ دل کی خرابی کے ذمّہ دار بھی ہم خود ہیں اب جب قلب خراب ہوگیا ہے تو سارا جسم خراب ہوگیا ہے پورے معاشرتی جسم میں فسق و فجور خون کی گردش کی طرح دوڑ رہا ہے اور ان خرابیوں کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے اس خرابی قلب کی وجہ اجتماعی غفلت ہے جس نے پورے نظام کو تو خراب کیا ہی ہے بلکہ اب تو ہماری آزادی بھی خطرے میں ہے کیونکہ جب جسم ہی لاغر ہوجائے تو وہ بھلا کیا دشمن کا مقابلہ کرسکتاہے قلب کو درست کیئے بغیر ہم جسم کےاندر موجود خرابی کو دور نہیں کرسکتے ملک کا سارا نظام مفلوج ہوچکا ہے اس کے لیے قیاد ت یعنی قلب کی اصلاح ضروری ہے۔