سیلف کنٹرول (ظبطِ نفس) کیسے ؟؟؟

سیلف کنڑول کی کمی کے اثرات ہمیں ٹین ایج میں ہی نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔نو عمری سے لے کر جواں عمری تک یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اگر شعور کے ساتھ اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جب لحاظِ تربیت سب سے زیادہ خدشات اور تحفظات کا شکار ہوتی ہے ۔والدین اور ماحول کا مجموعی اثر بچے لے رہے ہوتے ہیں اور اس عمر میں آکر صرف وہی عکس پیش  کرتے ہیں جو کچھ انہوں نے شعور اور لا شعور میں دیکھا اور سیکھا۔۔اس لیے اولاد کو جذباتی اور اعصابی لحاظ سے مظبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو سیلف کنٹرول کرنا سیکھنا پڑے کا۔۔لمحہ  لمحہ میں مزاج کا بدلنا۔۔بات بات پہ غصہ آنا ،ہر بات پہ فوری  ردعمل دینا ۔۔کسی کا غصہ کہیں اور بے سبب الجھن ۔چڑچڑے پن کا اظہار کرنا ۔۔بات بے بات جھڑکنا۔ یہ بچوں سے زیادہ بڑوں کے عمومی رویوں میں شامل ہیں ۔۔یہ بے اعتدال رویے بچوں کو والدین سے متنفر کرتے ہیں۔۔۔بچے دوستوں ،گھر سے باہر کے ماحول میں دلچسپی لیتے ہیں ۔۔کسی بھی نرم لہجے والے اجنبی کو اپنا ہمدرد سمجھنے لگتے ہیں۔غلط دوستوں غلط صحبت کو راہ فرار بنا لیتے  ہیں۔اس وقت والدین  اولاد کو خود سے دور ہوتا محسوس کرتے ہیں لیکن سمجھ نہیں آتی کہ کمی کہاں رہی ۔۔۔ان رویوں پہ اکثر والدین بچھتاوے کا بوجھ لیے رکھتے ہیں اور کئی ایک تو اپنی غلطی کو دل میں بھی تسلیم نہیں کرتے ۔۔اور آخری حد یہ ہوتی ہے کہ والدین  کہتے ہیں شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا یا بیوی آئے گی تو ٹھیک کر لے گی خود۔۔۔اور پھر وہی پہیہ  الٹا گھومتا ہے۔۔لڑکی ہو تو گھر میں موجود کسی رشتے سے نہیں بن پاتی اور گھر کا سکون برباد ہوتا  ہے..لوگ آس پاس رہنے والے رشتے دار اور احباب بات کرنا،معاملات کرنے سےکتراتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پھر اس عادت کو کب اور کیسے ٹھیک کیا جائے ؟؟

عمل درست کرنے کا صحیح وقت وہی ہوتا ہے جب یہ احساس ہو جائے کہ آپ خود اپنی منفی عادت سے پریشان ہیں اور اس سے دوسرے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔چاہے ٹین ایجرز ہوں،نوجوان ہوں یا چھوٹے بچوں کے والدین ،جب جہاں احساس ہو جائے وہاں عادت اور عمل بدلنے کے لیے ارادہ اور مستقل مزاجی ضروری ہے ۔اس کے بغیر کچھ بھی بدلنا ممکن نہیں۔جب ارادہ کرلیں تو تین نکاتی پروگرام پہ عمل پیرا ہو جائیں ،

پہلا  یہ کہ کسی بھی معاملے پہ جو “آؤٹ آف کنٹرول”لگے فوری رد عمل نہ دیں۔پانچ،دس منٹ کا وقت دیں خود کو جس میں اندر کا ابال بیٹھ جائے۔

دوسرا منظر بدل لیں،جس کی تاکید ہمیں حدیث میں بھی ملتی ہے کہ اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جائیں بیٹھے ہو تو لیٹ جائیں۔کسی اور کمرے میں چلے جائیں یا کسی اور کام پہ  توجہ مرکوز کرلیں۔

تیسرا رات سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ کتنے معاملات میں ہمیں سیلف کنٹرول نہ رہا۔کتنے معاملات میں خود پہ قابو رکھا۔ضروری نہیں ایک ہفتے یا کچھ  دن میں سو فیصد نتیجہ نکلے۔اگر ریٹنگ میں دس میں سے پانچ یا چھ نمبر پہ خود کو  رکھیں تو یہ بھی مثبت تبدیلی ہے۔پھر کہوں گی کہ یہ تمام عملی کوششیں مستقل مزاجی سے مشروط ہیں۔۔صرف سن کر یا پڑھ کر بدل جانا ممکن  نہیں جب تک کہ کچھ کر گزرنے کی سعی اور جدوجہد نہ کریں۔