سرکلر ریلوے کا خواب،خواب نہ بن جائے

ایک زمانہ تھا جب کراچی میں لوکل ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ پہلے پہل ان کا آخری اسٹیشن لانڈھی ہوا کرتا تھا۔ جب پاکستان اسٹیل تعمیر ہونا شروع ہوا تو اس کا دائرہ بن قاسم اسٹیشن تک بڑھا دیا گیا جس کا پرانا نام پپری تھا۔ بعد میں اسے دھابیجی تک وسعت دیدی گئی۔ یہ ٹرینیں وقت کی پابندی کے ساتھ چلا کرتی تھیں اور ان کی کامیابی کا یہ عالم تھا کہ اس میں سفر کرنے والے اکثر مسافر پورے پورے مہنے کا پاس تک بنوالیا کرتے تھے، یوں انھیں روز روز قطاروں میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لینے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑ تی تھی۔ یہ مقامی یا لوکل ٹرینیں سٹی اسٹیشن سے ریلوے کے اس ٹریک پر چلا کرتی تھیں جس پر کراچی سے پشاور جانے والے “اپ ڈاؤن” ساری ریل گاڑیاں چلا کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ ریلوے نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ سرکلر ریل بھی کراچی میں چلائی گئی۔ یہ ٹرینیں کراچی سٹی اسٹیشن سے وزیر مینشن، بلدیہ، سائٹ مل ایریا، اورنگی، ناظم آباد، گلشنِ اقبال، کراچی یونیورسٹی اور اولڈ ایریا سے گزرتے ہوئے ڈرگ روڈ اسٹیشن سے آکر ملا کرتی تھیں اور پھر دوبارہ سٹی اسٹیشن کی جانب رواں ہو جایا کرتی تھیں اس طرح یہ شہر کے سارے گنجان آباد علاقوں کو کور کر لیا کرتی تھیں۔ لوکل ٹرینیں ہوں یا کراچی سرکلر ریلوے، ان کی کامیابی کا یہ عالم تھا کہ ان میں بیٹھنے کی تو کجا، بعض اوقات کھڑے ہونے تک کی جگہ بصد مشکل ملا کرتی تھی۔ بے حد رش والے یہ اوقات زیادہ تر دفتری یا کار و باری اوقات ہوا کرتے تھے لیکن باقی اوقات میں چلنے والی یہ دونوں ٹرینیں ہمیشہ مسافروں سے بھری ہی چلا کرتی تھیں۔

یہ تو ہے ایک مختصر سے تمہید جو کراچی لوکل ٹرینوں اور سرکلر ریلوے کی متعلق باندھی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سروسز اتنی کامیابی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک فراہم کی جاتی رہیں وہ اچانک کس بنیاد پر بند کردی گئیں۔ خاص طور سے کراچی سرکلر ریلوے کو آخر کیوں بند کیا گیا کیونکہ اس کو بلا تعطل چلائے رکھنے کیلئے شہر میں کئی اوور ہیڈ برج ایسے بنائے گئے تھے جو بہت طویل اور محض کراچی سرکلر ریلوے کی وجہ سے بنانے پڑے تھے جن کی مالیت آج کے دور کے لحاظ سے کھربوں روپے بنتی ہے۔ ان پلوں کی تعمیر سے ٹریفک کی روانی میں تو بہتری آئی لیکن جہاں جہاں بھی ان کو تعمیر کیا گیا وہاں وہاں شہری علاقے روڈ کے دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے۔

لوکل ٹرینیں اورسرکلر ریلوے کے بند ہوجانے سے وہ لاکھوں افراد جو تقریباً 24 گھنٹے اس میں سفر کیا کرتے تھے وہ اس زمانے میں چلنے والی سرکاری اور پرائیویٹ بسوں میں سفر کرنے یا اپنی اپنی حیثیتوں کے مطابق ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس طرح ایک جانب مسافر بسوں پر بے تحاشہ دباؤ بڑھا تو دوسری جانب سڑکوں پر ٹریفک کا اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس وقت سڑکوں پر جتنی بھی سرکاری و نجی بسیں موجود ہوا کرتی تھیں، ان کے لحاظ سے سفر کرنے والے بہت ہی زیادہ ہو گئے اور عالم یہ ہوا کہ اچھے اچھے شریف انسان بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ بجائے بسوں کو مزید بڑھایا جاتا تاکہ مسافروں کو سفر کرنے میں آسانیاں پیدا ہوتیں، پہلے سرکاری بسیں سڑکوں سے غائب ہونا شروع ہوئیں اور اس کے بعد پرائیویٹ بسیں بھی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ بسوں کے کم ہوجانے کی وجہ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں “چنگ چی” اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوتا چلا گیا اور فی زمانہ یہ حال ہے کہ شاپنگ سینٹرز ہوں یا تفریحی مقامات، اکثر جگہوں پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ تک ایسا مسئلہ بن گئی ہے کہ ارد گرد کے کئی کئی چکر لگانے کے بعد بڑی ہی مشکل سےانھیں پارک کرنے کی جگہ میسر آتی ہے۔

ایک عرصے سے مسلسل یہ کہا جا رہا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے کو جلد بحال کر دیا جائے گا لیکن یہ وعدہ بھی ایسی زولف بنتا جارہا تھا جس کو سر کر لینے کا یقین تو ضرور تھا لیکن یقین کرنے والے کو بھی اس بات کا شک تھا کہ آیا وہ اس وعدے پر عمل ہوتے اپنی زندگی میں دیکھ بھی سکے گا یا نہیں۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس کو اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا حکم دینا پڑا۔

سپریم کورٹ کا حکم تو یہ تھا کہ خواب کی تعبیر ایسی ہو کہ خواب بھی شرمندہ ہوکر رہ جائے لیکن کرتا دھرتاؤں نے جیسے طے کر رکھا تھا کہ خواب تو خواب ہی ہوا کرتا ہے لہٰذا انھوں نے خواب کے درمیان ہی زبردستی آنکھ کھول دی اور یوں سرکلر ریلوے کا “سرکل” ادھورا ہی چھوڑ کر کورٹ کو یہ دھوکا دینے کی کوشش کی کہ ہم نے ادھورے ہی سہی، “سرکل” پر گاڑیاں دوڑا دی ہیں۔

کورٹ اس دھوکا دہی پر نہایت برہم ہے اور ایک خبر کے مطابق کورٹ نے ذمہ داروں کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے نہ صرف جواب طلب کیا ہے بلکہ تین ماہ کے اندر اندر اسے مکمل ہونے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے عوام کی آنکھوں میں سجے خواب سچے ثابت ہوتے ہیں یا پھر خواب کی تکمیل سے قبل ہی ان کی آنکھ کھول دی جائی گی۔ دعا ہے کہ عوام کی آنکھیں خواب کی تکمیل کے بعد ہی کھلیں لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب وفاق، کورٹ، صوبائی حکومت اور ریلوے کے محکمے کی مہر بند آنکھیں کھل جائیں اور کراچی والے اپنے اس خواب کی تعبیر پا جائیں جو ان کو آٹھ دس سال سے مسلسل دکھایا جا رہا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔