گلگت بلتستان حالیہ سیاسی صورت حال

گلگت بلتستان جسے عرفِ عام میں شمالی علاقہ جات کہا جاتا ہے۔اس کا کل رقبہ72971 مربع کلو میٹر ہے۔آبادی تقریبا 19 لاکھ کے قریب ہے جبکہ آبادی کی گنجانی سترہ افراد فی مربع کلو میٹر ہے۔گلگت بلتستان کا دارالحکومت گلگت جبکہ سب سے بڑا شہر سکردو ہے۔انتظامی تقسیم اس طرح سے ہے کہ اس کے 14 اضلاع،28تحصیلیں،3ڈویژن جبکہ 24 صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔گلگت بلتستان کی سرحدیں افغانستان کی طرف واخان،سنگیانگ چائنہ،لداخ اور آزاد کشمیر سے ملتی ہیں۔گلگت بلتستان کو 2009 میں آصف علی زرداری نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے سے اسے خودمختار حیثیت دے کر اس کا نام شمالی علاقہ جات سے گلگت بلتستان صوبہ رکھا۔صوبائی انتخابات مین پیپلز پارٹی نے وہاں پر حکومت بنانے کے بعد قمرالزماں کائرہ کو وہاں کا گورنر تعین کیا۔2015 میں پھر سے انتخابات کروائے گئے تو ان دنوں میاں نواز شریف کی حکومت تھی،گلگت بلتستان میں بھی صوبائی نشستوں پر نون لیگ کی برتری کی بنا پر وہاں پر مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی اور ایک بار پھر پنجاب سے ہی برجیس طاہر کو وہاں کا گورنر تعینات کیا گیا۔حالیہ الیکشن میں جو نتائج آئے وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کل 9 امیدوار منتخب ہوئے جبکہ 7آزاد امیدوار میں سے تین کا تعلق پی ٹی آئی سے ہی تھا۔باقی چار آزاد امیدوار بھی یقینا حکومتی ایوان میں ہی جائیں گے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر پی ٹی آئی کے پاس کل 17 صوبائی نشستیں ہوں گی۔چونکہ گلگت بلتستان میں کل صوبائی نشستوں کی تعداد 24 ہے اور ابھی تک 23پر انتخابات ہوئے ہیں جبکہ حلقہ نمبر 3 میں ایک امیدوار کے انتقال کے بعد الیکشن ملتوی کرانا پڑے ۔پی ٹی آئی کو امید ہے کہ وہاں پر بھی ان کا امیدوار ہی کامیاب ہوگا۔اس طرح کل اٹھارہ نشستیں پی ٹی آئی کے حصے میں آئیں گے۔اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو لازم بات ہے کہ وزیر اعلی بھی پی ٹی آئی کا ہی ہوگا۔مسلم لیگ ن کو صرف دو ۔پیپلز پارٹی کو تین جبکہ مولانا فضل الرحمن اور مجلس وحدت المسلمین کو صرف ایک ایک سیٹ مل سکی۔

اب انتخابات کا نتیجہ تو آگیا اور اس نتائج کے فورا بعد ہی حزب اختلاف کی طرف سے وہی روائتی دھاندلی کے الزامات کا واویلا شروع ہو چکا ہے۔کہ حالیہ گلگت بلتستان میں حکومتی مشینری نے دھاندلی سے اتنی نشستیں حاصل کی ہیں۔اس کی مزید وضاحت مریم کے اس بیان سے کی جا سکتی ہے جو انہوں نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے جاری کیا ہے کہ

’’گلگت بلتستان کے بہادر لوگو!ہمت نہ ہارنا ،ریت کی یہ دیوار گرنے والی ہے،کٹھ پتلی حکومت کا کھیل ختم ہونے کو ہے،سادہ اکثریت پی ٹی آئی کو نہیں ملی،بیساکھیوں کے سہارے چلنا پڑے گا‘‘اسی طرح سے بلاول بھٹو نے بھی اعلان کیا کہ چونکہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اس لئے ہم احتجاج کا راستہ اپنائیں گے۔جی جناب کیوں نہیں جمہوری ملکوں میں ہر کسی کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنا احتجاج کسی بھی مسئلہ کے خلاف ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔اس لئے بلاول بھٹو اور مریم بی بی کو بھی مکمل حق حاصل ہے کہ جب چاہیں موجودہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواسکتے ہیں۔لیکن میرا ایک سوال ہے کہ دونوں پارٹیاں اپنا احتجاج کس بنیاد پر اور کہاں پر ریکارڈ کروائیں گی۔کیونکہ سب سے بڑا سوال پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لئے یہ ہے کہ دھاندلی کیسے ہوئی؟حکومت نے کی تو کیسے کی؟حکومتی مشینری کو استعمال کی گیا تو کیسے کیا گیا،کیونکہ فوج تو اب اس الیکشن میں بالکل بھی شامل نہیں تھی۔یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فوج انہیں لے کر آئی ہے۔کیونکہ افواج پاکستان نے شروع د سے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم اس الیکشن میں کسی قسم کی شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔سیاسی جماعتیں خود ہی انتخابات کے انعقاد میں حصہ لیں گی۔یعنی بیلٹ پیپرز اور ووٹ دالنے میں دھاندلی کو ثابت کرنا ہوگا۔جو کہ آسان کام نہیں ہے جبکہ دوسری صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اپنے وزرا اور خود وزیر اعظم نے گلگت بلتستان میں جا کر اپنے سیاسی جلسوں کا انعقاد کر کے پری پول رگنگ(دھاندلی قبل از انتخابات)کی ہے۔اس بات سے کسی کافر کو بھی مفر نہیں ہے کیونکہ ایسا تو ہوا ہے۔اگر اس دلیل کو مان بھی لیا جائے تو پھر اس طرح کی دھاندلی میں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی شامل رہی ہے۔کیونکہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف اپنے اپنے دور حکومت میں ایسا کرتے رہے ہیں۔اور پھر میاںصاحب نے تو گلگت بلتستان کے لوگوں سے بے شمار وعدے بھی کر رکھے تھے جیسے کہ اس علاقہ کو ایک بڑا ائرپورٹ دیا جائے گا تاکہ وہاں پر بڑے ہوائی جہاز اتر سکیں۔کارگو جہاز بھی چلایا جائے گا تاکہ اس علاقہ کے لوگ مقامی پھلوں کو بین الاقوامی منڈیوں تک لے جا سکیں۔نوجوانوں کو بیس لاکھ تک قرضے دئے جائیں گے،ایک ہزار کے قریب لیپ ٹاپ بھی دئے جائیں گے اور ایک بڑی شاہراہ چالیس ارب روپے سے تعمیر کی جائے گی تاکہ یہاں کے لوگوں کا رابطہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے جلد ممکن بنایا جا سکے۔یہ سب وعدے پورے ہوئے اس بات کا فیصلہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے کرنا تھا اور انہوں نے اپنا فیصلہ اپنے ووٹ کے استعمال سے کر کے دکھا دیا۔جو پورے پاکستان کے سامنے ہے۔

یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ گلگت بلتستان میں سکردو سے تعلق رکھنے والے مقپون خاندان سے راجہ جلال حسین کو گورنر مقرر کیا گیا ہے وگرنہ اس سے قبل میں عرض کر چکا ہوں کہ دونوں مرتبہ گورنر پنجاب سے ہی لگایا گیا تھا۔مسلم لیگ ن نے برجیس طاہر جبکہ پیپلز پارٹی نے قمرالزمان کائرہ کو گورنر تعین کیا تھا۔سمجھداری یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کو دھاندلی کا شور مچانے کی بجائے اس علاقہ میں ترقیاتی کام کروانے چاہئے تھے جو کہ دونوں پارٹیاں کروانے میں ناکام رہیں۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنا سیاسی فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دے دیا ہے۔اب انہیں احتجاج کا راستہ اپنانے کی بجائے کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کے ثبوت نہ ہیں اور نہ ہی اکٹھے کر پائیں گے تو حل یہی ہے کہ سکون سے بیٹھ کر آئندہ پانچ سال کا انتظار کریں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔