طلبہ کو دباؤ کے طغیان سے بچانے والے بادبان

مشہورچینی مقولہ ہے “کسی کو تعلیم دینے کا مطلب ہے دوبارہ تعلیم حا صل کرنا” اس قول کی روشنی میں اساتذہ کے لئے تدریس کی انجام دہی سے قبل از سر نو فن تدریس کے اسرار و رموز سے خود کو متصف کرنا لازم ہوجاتا ہے تاکہ ترسیل علم کو موثر اور ممکن بنایا جا سکے۔ تجزیے ،تجربے اور مشاہدے کو بروئے کا ر لائے بغیر اساتذہ کی فطری صلاحیتوں میں جمودیقینی امر ہے۔جدیدتعلیمی تحقیقات کے مطابق جبر و تسلط پر مبنی تعلیمی نظام پڑھے لکھے جاہلوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کر رہا ہے جن کے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن وہ معروضی حقیقت کے ادراک سے بے بہرہ اور نا آشناہیں۔ یہ بات اساتذہ ذہن نشین کر لیں کہ جو کچھ ان کو یونیورسٹی اور کالجوں میں فن درس و تدریس کے ضمن میں سکھایا جاتا ہے وہ مکمل تعلیم نہیں ہوتی ہے بلکہ فن تعلیم و تربیت کا صرف ایک ادنی ذریعہ ہوتی ہے۔اساتذہ کا محض تھوڑے سے علم پر قناعت کرنا درست نہیں ہے بلکہ وہ اپنے ذہن کو وسعت و کشادگی سے ہمکنار کر یں۔مشہور فلسفی و ماہر تعلیم برٹرینڈرسل کا کہنا ہے کہ ’’ تعلیم میں جبر سے طالب علموں کی صلاحیتوں اور دلچسپی کا خاتمہ ہوجاتا ہے‘‘۔

دور حاضر کے طلبہ کشیدہ ماحول کی وجہ سے ذہنی انتشار و دباؤ کا شکارہو رہے ہیں۔دباؤ طلبہ کی جسما نی و ذہنی،جذباتی نشوونما کے لئے سم قا تل ہے۔دباؤ حصول علم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دباؤ میں گرفتار طلبہ والدین اور اساتذہ کی مد د کے بغیر اس اندھے کنویں سے ہر گز باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔طلبہ میں ذہنی دباؤ کے زیر اثر کئی مضر اثرات پرورش پانے لگتے ہیں۔طلبہ کے رویوں اور طرزعمل سے بخوبی ان علامات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔نوخیز ذہن دباؤ کی آندھی میں اپنے آپ کو بے بس و بے یار و مددگار محسوس کرتا ہے جس کی وجہ سے ترقی کی راہیں بھی مسدود ہوجاتی ہیں اور شخصیت بھی مجروح ہوجاتی ہے۔ دباؤ کے دردناک شکنجے میں محروس طلبہ اپنی نو عمری و نوخیزی کی وجہ سے دباؤ پیدا کرنے والے اسباب سے نا آشنا ہوتے ہیں۔دانش اور تجربہ کی کمی کے باعث ان حالات کا سامنا کرنے کا بھی خود کو اہل نہیں پاتے ہیں۔ اسی لئے طلبہ کو دباؤ پیدا کرنے والے عناصر و اسباب سے آگا ہ کر نا اور ساتھ ہی ساتھ دباؤ کے انسداد و تدارک کے طریقہ کار سے ان کو واقف کر نا اساتذہ کا فرض عین ہے۔

تدریس کو دباؤ سے پاک کرنے کے فن سے عدم آگہی تدریس کو اغلاط کا مرکب بنادیتی ہے ۔طلبہ کی ہمہ جہت ترقی و نشوونما کے لئے سعی و کوشش کرنے والے اساتذہ دباؤ پیداکرنے والے اسباب و عوامل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور طلبہ کو دباؤ پرور حالات سے نبرد آزما ہونے کے فن سے لیس کردیتے ہیں۔اپنے فرائض سے پہلو تہی کے بجائے فرض شناس اساتذہ طلبہ کو دباؤ کاجواں مردی سے سامنا کرنے اور اس کے کامیاب سدباب کا حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔دباؤ کا منبع و مرکز اکثر گھر ،اسکول،معاشرہ ،بعض اوقات طلبہ کے خودساختہ حالات یا فکر ہوتی ہے۔اساتذہ دوران تدریس طلبہ سے اپنی گفت و شنید کے ذریعہ دباؤ کے اسباب کا آسانی سے سراغ لگا سکتے ہیں۔طلبہ کو مضطرب و بے چین کر نے والے اسباب کا بھی اساتذہ دوران گفتگو پتا لگاسکتے ہیں۔استاد کو جب دباؤ پیدا کرنے والے عناصر کا سراغ مل جاتا ہے تو وہ بحسن و خوبی طلبہ کو دباؤ سے نجات دلانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔دباؤ سے متاثر ہ طلبہ میں خود اعتمادی کی فضاء بحال کرنا اور ان کو اعتماد میں لینا بہت اہم ہوتا ہے۔طلبہ میں اعتمادی کی بحالی کو دباؤ پر قابو پانے کا ایک نہایت کارگر ہتھیار گرداناگیا ہے۔

طلبہ میں دباؤ پیدا کرنے والے عوامل

دباؤ کی وجہ سے ذہنی ،جسمانی اور جذباتی افعال کی کارکردگی پر گہرا اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں رویوں کی پیچیدگی اور برتائو میں الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔عام طور پر دباؤ کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جس کا اظہار ذہنی ،جذباتی اور جسمانی خلفشار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ہر ایک طالب علم میں دباؤ کے اسباب و حالات کی پیش قیاسی مشکل ہے۔دباؤ کے خطرناک مسائل کی نمو میں چند واضح عوامل ہوتے ہیںجو بچوں میں تال میل پیدا کرنے میں مانع واقع ہوتے ہیں اوروہ سنگین مسائل کا نقطہ آغاز بن جاتے ہیں۔

دباؤ کی چند اہم وجوہات کو ذیل میں درج کیا گیا ہے۔

(1)جسمانی معذوری ،جیسے بہرہ پن،ناقص بینائی،گفتگو میں الجھن اوراکتساب کی کم تر سطح و غیرہ بچوں میں احساس کم تری کے جذبات کو پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں نہ صرف دباؤ پیدا ہوتا ہے بلکہ ان میں برتائو اور رویوں کا انحاط جیسے مسائل بھی پنپنے لگتے ہیں۔

(2)بعض بچے اپنی ظاہری وضع قطع کے تعلق سے حساس واقع ہوتے ہیں۔اپنی ظاہری وضع قطع پر حد سے زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے ان میں منفی جذبات سر اٹھانے لگتے ہیں۔اپنی وضع قطع سے عدم اطمینان کے باعث دوسروں کی جسمانی وضع قطع کو بہتر سمجھتے ہیں اور خود کو ان سے کمتر سمجھتے ہیںاور مغلوبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس طرح کا شدید احساس ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کر تا ہے اور وہ رنجیدہ و غمگین رہنے لگتے ہیں۔

(3)طویل عرصے تک جاری رہنے والی بیماری اور طبی مسائل جو جسمانی کمزوری کا باعث ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی بھی سرگرمی میں شرکت سے اجتناب کر تے ہیں اور یہ امر ان کے لئے سوہان روح بن جا تا ہے۔

(4)والدین اور اساتذہ سے درکار توجہ ،شفقت ،تعریف و توصیف اور ہمت افزائی جب نہیں جٹا پاتے ہیں جس کے و ہ مستحق ہوتے ہیںتب دباؤ ان کو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیتا ہے۔

(5)والدین کی معاشی پسماندگی اور بچوں کے ساتھ عدم تعاون کی وجہ سے منفی خیالات بچوں میں ابھرنے لگتے ہیں جو آخر کار دباؤ کا باعث بن جا تے ہیں اور طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو کچل دیتے ہیں ۔

(6)بچوں سے والدین کا حد سے زیادہ توقع قائم کرنا ،والدین کی علیحدگی،ماں باپ کا بچوں سے خراب انداز تخاطب اور والدین کی طویل عر صے تک بیماررہنے کی وجہ سے جذباتی اضطراب میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(7)جب بچوں میں یہ احساس گھر کر لے کہ ان کی ضرورتوں،دلچسپیوںاورتخلیقی صلاحیتوں پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اور ان کی اختراعی کاوشوں کو سراہا نہیں جارہا ہے اور نہ حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تب بھی وہ نا قابل بیان دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(8)ترتیب و سلیقے سے مطالعہ کی عدم انجام دہی،اپنی ترقی کے متعلق تشکیک،امتحانات کا خوف،ضخیم نصاب،کمتر عزت نفس اور خود اعتمادی کے فقدان کے سبب ذہنی خلفشار و دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(9)والدین اور اساتذہ کی جانب سے امتحانات میں اعلیٰ نشانات کے حصول کے لئے اصراربھی بچوں میں بے تحاشہ دباؤ میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے وہ فطری مظاہر ہ نہیں کر پاتے ہیں۔

دباؤ کے عمومی علامات و اثرات

ہر قسم کا حد سے زیادہ خلجان ،تنائو،ذہنی خلفشار اور خوف کی کیفیت دباؤ کے افزئش کا باعث بنتے ہیں جو بچوں کی بہتری اور ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔دباؤ پیدا کرنے والے عناصر سے جب دماغ معلومات حاصل کر تا ہے تو وہ جسم کو دباؤ سے نبرد آزما ہونے کے لئے محرکہ (Stimulus)پیدا کر تا ہے۔دباؤ کے زیر اثر پیدا شدہ مسائل پر جسمانی ردعمل پیچیدہ اعصابی اور درون افرازی غدودی نظام(Endocrine System) کے تحت ہوتا ہے۔بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنے والے طلبہ میں غیر صحت مند رویوں اور عادات کا ظہور یقینی ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ متعدد صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہوجاتے ہیں۔تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آغاز بلوغت یا عنفوان شباب میں دباؤ کی وجہ سے طلبہ غیر پسندیدہ رویوں میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔

موجو دہ حالات میں اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلبہ میں پائے جانے والے دباؤ کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں ۔دباؤ کی علامات اور شناخت کی پہچان پیداکریں۔دباؤ کے انسداد و تدراک کے لئے موثر تکنیک و لائحہ عمل ترتیب دیں ۔ماہرین نفسیات کے علم و تجربات سے فیض اٹھائیں۔اساتذہ کے لئے یہ شعور ضروری ہے کہ وہ دباؤ اور اس کے زیر اثر پرورش پانے والے بچوں کے نفسیاتی وجسمانی صحت اور رویوں کے متعلق آگہی حاصل کریں۔ کیونکہ نفسیاتی و حیاتیاتی نقائص بچوں کے نوخیز ذہنوں پر خطرناک تخریبی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ ایک پریشان کن بات ہے کہ خراب بیرونی اثرات بچوں میں دباؤ آمیز برتائو کا باعث بنتے ہیں۔غائر مشاہدے و مطالعے سے درجہ ذیل دباؤ کی علامات کا علم ہوا ہے۔

(1)دوران تدریس بچوں میں دلچسپی اور ارتکاز (Concentation) کا فقدان پایا جا تا ہے۔اکثر بے پرواہی کی وجہ سے غلطیوں کا ارتکاب کر جا تے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں۔

(2)سست ،آزردہ دکھائی دیتے ہیں ہر قسم کی تعلیمی سرگرمی سے خود کو دور رکھتے ہیں۔الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیںاور اس کے علاوہ بعض مرتبہ خو د کو ہی گزند پہنچالیتے ہیں۔

(3)بہت جلد بپھر (غصہ) جاتے ہیں۔معمولی سی بات پر الجھ پڑتے ہیں۔بحث تکرار پر اتر آتے ہیں۔دباؤ پروردہ طلبہ میں بات بات پر اشک شوئی اور مایوسی کا اظہار بھی عام بات ہے۔

(4)اکثر و بیشتر جسمانی تکالیف جیسے سردرد،پیٹ درد،عضلاتی تکلیف اور بیماری کی شکایت عام پائی جاتی ہے۔یہ شکایت بھی اکثر و بیشتر غلط ثابت ہوتی ہے اس طر ح کی شکایات صرف اور صرف دباؤ کے زیر اثر پیدا ہوتی ہیں۔

(5)دباؤ میں مبتلاء بچوں میں عام طور پر خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔خلاف معمول حرکات و برتائو کا اظہار ہوتا ہے اور اکثر بے آرامی کی شکایت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔

(6)دباؤ کے سبب تعلیم میں عدم توجہ ،عدم دلچسپی کی وجہ سے عام ادراکی صلاحیتیں تنزل کے طرف گامزن ہوتی ہے۔

(7)اساتذہ اور اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے بے رخی و بے اعتنائی سے پیش آتے ہیں۔بعض مرتبہ خلاف معمول جارحانہ برتائو کی وجہ سے دوسروں کو خطرناک حد تک تکلیف پہنچادیتے ہیں۔

دباؤ سے بچائو کے طریقہ کار

اساتذہ کے لئے طلبہ کودباؤ سے سامنا کرنے کی تکنیک سے آراستہ کرنا ناگزیر ہے۔دباؤ پر قابو پانے اور اس کے انسداد کے لئے مرتب کردہ لائحہ عمل کے زریعہ اساتذہ بچوں کے مددگار بنیں بچوں کو دباؤ سے نبرد آزما ہونے کے گر اور طریقے سکھائیں۔اگر ان امور سے اساتذہ غفلت برتیں گے تو بچوں میں رویوں کی خرابی اور اکتسابی مسائل جڑ پکڑ لیں گے۔اساتذہ اگر طلبہ میں پائے جانے والے دباؤ سے مناسب طریقہ سے نہیںنمٹیں گے تب یقینا طلبہ دباؤ کے زیر اثر پروان چڑھیں گے اور بے بضاعتی اور کم ہمتی کا اظہار کریں گے۔تعلیم پر اپنی توجہ و انہماک مرتکز نہیں کر پائیں گے جس کا اکتسابی سعی و کاوش پر خرا ب اثر پڑے گا اور بچوں میں تعلیمی انحطاط رونما ہوگا۔

اساتذہ دباؤ پیدا کرنے والے عوامل کی شناخت ،تشخیصی طریقوں اور حکمت عملی کو برئو ے کار لاتے ہوئے دباؤ کا انسداد کر سکتے ہیں۔دباؤ سے سامنا کرنے کے لئے کم از کم ذیل کے نکات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔

(1)دباؤ پیدا کرنے والے عناصر ،ان کے اثرات اور ان کی ساخت ،ترکیب و ترتیب سے مکمل آگہی ضروری ہے۔

(2)استاد کے لئے دباؤ پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قوت مشاہدے کو مہمیز کرے اور طلبہ میں ہونے والی یکایک خلاف معمول جسمانی اور برتائو کی تبدیلی کو محسوس کر ے اوراس کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔

(3)دباؤ پر قابو پانے کے لئے استاد کو طلبہ اور موقع محل کی مناسبت سے مناسب طریقہ کار کا اطلاق ضروری ہوتا ہے۔

(4)دباؤ سے موثر طریقے سے نبر د آزمائی کے لئے استاد کا پرسکون رہنا ،طلبہ سے ہم آہنگی پیدا کرنا اور متحرک ہونا بے حدضروری ہوتا ہے ۔طلبہ میں دباؤ کی وجہ سے ہونے والے ذہنی خلفشار کے خاتمے کے لئے اساتذہ کو مناسب طریقہ کار و ضع کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ کی مدد ہو اور وہ اپنے آپ کو آسودہ رکھ سکیں۔ذیل کے نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے دباؤ پر موثر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

(1)استاد کے لئے دباؤ پیدا کرنے والے حالات ،واقعات ،وجوہات اور عوامل سے آگہی بے حد ضروری ہے تا کہ دباؤ کے انسداد و تدارک کے لئے بہتر حکمت عملی اور طریقہ کار کو عمل میں لا یا جا سکے۔

(2)استاد کو فوری طور پر عمل اور ردعمل سے اجتناب کر نا ضروری ہے ۔دباؤ کو دور کرنے والے طریقوں اور تکنیک پر بہت غور و خوض کے بعد عمل کر ے جو کہ مقصد کی تکمیل میں ممد و معاون ثابت ہو۔

(3)مناسب منصوبہ بندی ، طریقہ کار کی تیاری اور منظم طریقے سے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

(4)دباؤ میں گھرے ہوئے طلبہ سے محبت و شفقت کا رویہ اپنائیں ۔طلبہ سے اپنے تعلق کو مضبوط و مستحکم کریں۔ طلبہ میں خود اعتمادی کی بحالی کے لئے ان سے بہتر پیرائیہ گفتگو اختیار کریں اور اس با ت کا خاص خیال رکھیں کہ طلبہ کو پتا بھی نہ چلے کہ گفتگو آپ کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

(4)دباؤ پیدا کرنے والے عناصر کی شناخت کے لئے طلبہ کو بات چیت کا مناسب موقع دیں۔سوالات کے زریعے کہ یہ کیسے ہوا،آپ کو کیسا لگا،حقائق کو معلوم کر نے کی کوشش کر یں۔سوالات کے دوران بچوں سے آپ کا رویہ ایک مددگار کا ہونا چاہئے۔ بعد میں ضرورت کے مطابق آپ ان کی اصلاح کر دیں۔

(6)طلبہ سے گفتگو کے دوران کسی بھی قسم کے نوٹس ان کے سامنے تحریر نہ کریں۔گفتگو کے اختتام پر تما م دریافت شدہ معلومات کو ضبط تحریر میں لائیں۔

(6)کسی بھی مرحلے پر بے صبری و عدم استقامت کا مظاہرہ نہ کریں۔طلبہ کو دباؤ سے نجات دلانے کے لئے اساتذہ کو بہت زیادہ صبر و تحمل کی ضرور ت ہوتی ہے۔

(7)معاملہ کا تجزیہ کریں،دباؤ پیدا کرنے والے مخصوص عوامل کی شناخت کریں۔اگر ضروری ہوتو دیگر اساتذہ سے ربط پیدا کرتے ہوئے معلومات کا اشتراک عمل میں لائیں جس کے زریعے مناسب اور مبسوط حکمت عملی کو وضع کیا جاسکے۔

(8) استاد کو اگر دباؤ پیداکرنے والے عوامل کا سراغ بچوں کے گھر میں محسو س ہورہا ہے تو وہ دباؤ کے سد با ب کے لئے اولیائے طلبہ سے ربط پیدا کریں اور دباؤ سے نجات کو یقینی بنائیں۔

(9)طلبہ کو ذہنی خلفشار و دباؤ سے نبر د آزما ہونے کے لئے بہتر طریقوں سے آراستہ و پیراستہ کریں ۔طلبہ کو دباؤ سے سامنا کرنے کے لئے ذہنی طور پر مضبوط و مستحکم کریں۔طلبہ کی مسلسل حوصلہ افزائی و رہبر ی سے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا جا سکتا ہے۔

(10)طلبہ میں عزت نفس کے جذبہ کو اجا گر کر یں اور ان کو اس بات کا احسا س دلائیں کہ دباؤ کی وجہ سے ان کی ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں گی اور ان کی زندگی بھی تباہ و برباد ہوجائے گی۔

(11)جب کبھی اساتذہ کو دباؤ سے متعلق مسائل کے بارے میں انتظامیہ ،دیگر حضرات و اشخاص کی ضرورت پیش آئے تو و ہ ان سے مد د لینے میں عار محسوس نہ کر یں بلکہ بہت جلد مدد کے حصول کو ممکن بنائے۔

ہمارے تعلیمی نظام کو دباؤ سے آزاد کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔طلبہ میں احساس ذمہ داری ،عزت نفس اور دیگر صحت مند رویوں کو فروغ دینے کے لئے بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب ترتیب دیں۔تعلیم کو زندگی کے لئے ضروری مہارتوں سے مربوط کرتے ہوئے طریقہ تعلیم کو لچکدار اور با اثر بنائیں تاکہ طلبہ کو زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔