فی ذمتہ اللہ

بحرین کے وزیراعظم خلیفہ بن سلمان 84 سال کی عمر میں علالت کے بعد امریکہ میں مائیو کلینک میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ سرکاری طور پر ایک ہفتے کے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں پرچم سرنگوں رہے گا۔ان کی عوام ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ کچھ ماہ قبل جب وہ بیماری سے صحت یاب ہوئے تو بڑی بڑی شاہراہوں پر ان کے لئے صحت یابی کے بینر لگے تھے خاص کر اس شاہراہ پر جو ان کے محل کو جاتی ہے۔ اب ان کی وفات کے بعد بھی ہر بڑے بل بورڈ پر ان کے لئے تعزیتی پیغامات آویزاں ہیں۔ الوداعی الفاظ کلمات درج ہیں، مختلف ممالک کے سرکاری وفود شاہی خاندان کے پاس افسوس کرنے آ رہے ہیں۔ اللہ ان کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے آمین۔

خلیفہ بن سلمان کو (1971 میں انگریزوں سے آزادی کے بعد سے اب تک) دنیا کے سب سے طویل مدت وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔قریبا پانچ دہائیاں انہوں نے اس عہدے پر کام کیا۔ مشرق وسطی کی سیاست میں ان کا بہت نمایاں کردار رہا ۔ وہ بادشاہ شیخ حمد بن عیسی کے چچا تھے۔ بحرین کا انحصار باقی خلیجی ممالک کی طرح تیل پر نہیں ہے کیونکہ یہاں تیل کی پیداوار اتنی نہیں ہے۔ البتہ یہ تجارتی و کاروباری مرکز بن کر ابھرا ہے اور اس میں نمایاں کردار وزیراعظم خلیفہ بن سلمان کا ہے۔ بحرین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ 90ء کی دہائی میں اور پھر 2011 میں بحرین اندرونی خلفشار کا شکار رہا مگر اس سب پر خلیفہ بن سلمان نے بطریق احسن قابو پایا ۔ اللہ ان کو غریق رحمت کریں اور ان کی مغفرت فرمائے (آمین)۔

موت وہ اٹل حقیقت ہے جو نہ سن رسیدہ جھونپڑی دیکھتی ہے اور نہ محلوں کی اونچی فصیلیں اس کا راستہ روک سکتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے گندے برآمدوں میں بھی اور سات ستارہ ہسپتالوں کے وی وی آئی پی پرائیوٹ کمروں میں بھی بنا دستک دیے، بغیر پوچھے خاموشی سے داخل ہوتی ہے، روح کو لیئے پرواز کر جاتی ہے اور پیچھے لواحقین کا شور و غوغا چھوڑ جاتی ہے۔ لواحقین اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کو الوداع کر آتے ہیں۔ ساتھ جانے والے بس اعمال ہی تو ہیں۔ پیچھے رہنے والے عزیز جن کے لئے مرنے والے کی زندگی بھر کوششیں محنتیں صرف ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ کچھ دن یاد رکھتے پھر اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہی محفلیں جن کا وہ لازمی حصہ ہوتا ہے اس کے بغیر بھی چل رہی ہوتی ہیں۔ گویا جانے والا اکیلا ہی جاتا ہے۔

ہمیں کیا کہ تربت پہ میلے رہیں گے

تہہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے۔ 

جنازے اور تدفین کی جو تصاویر میڈیا پر سامنے آئیں اس نے ایک بار پھر ہمیں موت اور موت کی حقیقت کا اعادہ کرا دیا۔ انسان کتنا بے بس ہے کہ زندگی میں ہجوم میں گھرا ہوتا ہے، نوکر چاکر ، چاہنے والے، خوشامد کرنے والے ، عزیزوں اور دوستوں کی محفلیں ، اور پھر سانسیں تھمتی ہیں تو تہہ خاک اکیلا ہوتا ہے ۔ نا حلقہ احباب نہ اپنے پیارے نہ واہ واہ کرتی آوازیں بس ایک سناٹا اور ساتھ لے گئے اعمال۔ عربوں کے رنگ ڈھنگ کیا سے کیا ہو گئے مگر ان کا طریقہ تدفین وہی سادہ ہی ہے ۔ سادہ سی مٹی کی سادہ سی قبراور کفن،خالی ہاتھ واپسی۔ نہ جاہ و جلال وہاں کام آتا ہے نہ مال و دولت۔ وہاں کی کرنسی تو نیک اعمال ہی ہیں۔ جس کو اللہ نے جس قدر نوازا ہوتا ہے اس کی پوچھ بھی اتنی ہی ہونی ہے۔

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ مجھے کیوں کسی سرکاری کام پر نہیں لگاتے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوذر تم ایک کمزور آدمی ہواور یہ عہدے قیامت میں حسرت وندامت کا سبب ہوں گے سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جوذمہ داریاں اس ڈالی گئی تھیں وہ اس نے ادا کردیں(مسلم ۔بیھقی۔ترغیب وترھیب)۔

دیکھا جائے تو دنیا میں ہم کہاں کم پر راضی ہوتے ہیں جتنا کم ہوتا اتنا غم ہوتا۔ حالانکہ سوچیں تو کم کا حساب کتنا آسان ہو گا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی خوبصورت اور جامع دعا سکھائی ہمیں

الھم حاسبنی حسابا یسیرا(آمین)

شاہی خاندان کو بھی اور عام آدمی کو بھی ڈھانپنے والی وہی مٹی ہی ہے۔

سوچ کر میں نے چنی آخری آرام گاہ 

میں تھا مٹی اور مجھے مٹی کا گھر اچھا لگا 

اتنے سادہ سے قبرستان اور جنازے غیر مسلموں کے لئے ذریعہ تبلیغ بن جاتے ہیں ۔ کچھ سال قبل جب سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی وفات ہوئی تھی تو ان کی تدفین اور قبر کو دیکھ کر ایک دن میں 500 افراد نے اسلام قبول کیا تھا۔ بہر حال ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں لوٹ لر وہیں جانا ہے۔ اللہ ہمیں اپنے واپسی کے لئے تیاری کرنے والا بنائے ۔ (آمین)