پانچ روپے کا ماسک اور 200 کی بریانی

میرے آج کے کالم کا موضوع کچھ عجیب سا لگ رہا ہوگا کہ یہ ماسک اور بریانی کی پلیٹ کا آپس میں کیا تعلق،تو جناب کبھی کبھار تعلق یونہی بنا لینا چاہئے جیسا کہ ایک مزارع ایک زمیندار کے کھیت میں ہل چلا رہا تھا کہ ایسے میں زمیندار کا ادھر سے گزر ہوا۔زمیندار نے دیکھا کہ مزارع ہل ٹھیک سے نہیں چلا رہا ہے تو اس نے ڈانٹتے ہوئے اس مزارع سے کہا کہ غلامیاں! تم ’’سڑیوں کے ساتھ سڑی‘‘یعنی لائن کی ترتیب کے ساتھ ہل نہیں چلا رہے ہو،جس پر غلاماں بولا کہ چوہدری صاحب جب آپ نے اپنی دھی کا پیسہ کھایا تھا تو کیا میں بولا تھا؟چوہدری نے ذرا گھبراتے ہوئے پوچھا کہ بھلا اس جواب کا میرے سوال کے ساتھ کیا تعلق ہے تو مزارع نے کہا چوہدری صاحب ’’گلاں چوں گل ایویں ای نکلدی اے‘‘یعنی باتوں میں سے باتیں ایسے ہی نکلتی ہیں۔

لیکن میرے موضوع یعنی ماسک اور بریانی کا تعلق اس لئے ہے کہ آجکل حکومتی اور اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے جلسوں کا سلسلہ جو چلا ہوا ہے اس میں میری طرح آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ حکومتی ایوانوں سے ان کے مشیران جب بھی ٹی وی ٹاک شوز میں تشریف فرما ہوتے ہیں ان کی ایک ہی آواز ہوتی ہے کہ کرونا کا مرض ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے اس لئے عوام کو ایس او پیز کا خاص خیال رکھنا پڑے گا۔

بات بالکل درست ہے لیکن جب حافظ آباد کا جلسہ ہوتا ہے اور اس میں مہمان خصوصی خود ملک کے وزیر اعظم عمران خان صاحب خود تشریف لاتے ہیں تو کیا انہوں نے اپنے سامنے عوام کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو بنا ماسک کے نہیں دیکھا ہوگا؟اگر دیکھا تھا تو پھر کیوں اپنی انتظامیہ کو خبردار نہیں کیا کہ اتنی ساری عوام بنا ماسک کے کیوں ایک جگہ جمع ہوئی ہے۔اور انتظامیہ کا حال دیکھ لو کہ تماشائیوں کی تعداد پر ہر ٹی وی ٹاک شو میں بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے نمبرز اپوزیشن کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھے لیکن کوئی یہ نہیں کہیے گا کہ ہمارے جلسے میں آنے والی عوام کا شعوری لیول آپ کی عوام سے اس لئے بہتر تھا کہ انہوں نے حکومتی ہدایات کے مطابق کرونا کے خلاف ایس او پیز کا زیادہ خیال رکھا ہوا تھا۔

یہی حال اپوزیشن کے جلسوں میں بھی دیکھا گیا ہے اگر صرف گوجرانوالہ،کراچی کے جلسہ کو ہی لے لیں تو ہر میڈیا چینل نے دکھایا تھا کہ لوگوں کا جم غفیر جمع ہونا شروع ہو گیا ہے۔لوگ صبح سے ہی جوق در جوق جلسہ گاہ کی طرف آرہے ہیں ہر طرف بریانی اور کھانے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔بہت اچھی بات ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلا یا جارہا ہے۔کیونکہ بھوکے پیٹ تو سارا دن جلسہ گاہ میں عوام اپنے لیڈران کا انتظار نہیں کر سکتی۔اور ظاہر ہے بریانی کا انتظام بھی اپوزیشن کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے کیا ہوگا ،عوام تو اپنے ساتھ دو وقت کی روٹی ٹفن میں پیک کر کے اپنے ساتھ لانے سے رہی۔اگر اپوزیشن کے ایم پی ایز اور ایم این ایز ہزاروں لوگوں کی بھوک اور بھوکے پیٹ کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے ایک ایک پلیٹ بریانی کا خیال رکھ سکتے ہیں جس کی چلیں ہول سیل میں قیمت دو صد روپے لگا لیں ،ان کا انتظام ہوسکتا ہے تو ہول سیل میں ایک ماسک جس کی قیمت کسی طور پانچ روپے سے زیادہ نہیں ہوگی اس کا انتظام کیو ں نہیں کر سکتے۔شائد اس لئے کہ ان سیاسی حضرات کو عوام کی زندگی اتنی عزیز نہیں ہے جتنا کہ ان کا ووٹ۔ان کی پیٹ کی فکر محض اس لئے ہے کہ وہ ان کی کرپشن بچانے کے لئے گھر سے نکلیں۔خواہ ان کی زندگی کرونا کی نظر ہی کیوں نا ہو جائے۔

اگر عوام کی زندگیوں کی فکر ہمارے ان سیاستدانوں کو ہوتی تو پھر اپنے چہروں پر پاکستانی کلر کا ماسک پہن کر ڈرامہ کرنے کی بجائے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی عوام کے چہروں پر بھی پاکستانی کلر کا ماسک سجانے کی فکر کرتے۔مگر انہیں تو اپنی زندگی کی پرواہ ہے،انہیں تو خود کو کرونا سے بچانے کی فکر لاحق ہے۔عوام خواہ ماسک پہنیں یا نہ پہنیں بس ان کے جلسے بھرے ہونے چاہئے۔یقین جانئے اگر انہیں عوام کی زندگیوں کی قدر ومنزلت اور قیمت کا اندازہ ہوتا تو پہلے عوام کے چہروں پر ماسک پہناتے پھر خود اپنے چہروں پر پاکستانی کلر کا ماسک پہنتے۔مگر یہاں بھی پاکستان کے ساتھ اور عوام کے ساتھ دھوکہ، جیسا کہ پچھلے تہتر سالوں سے یہ لوگ کرتے چلے آرہے ہیں۔لیکن اگر انہیں واقعی پاکستانی عوام کی فکر ہوتی تو پھر چینی انقلاب کے داعی مائو کی طرز سوچ کے حامل ہوتے یہ سب ہمارے سیاستدان۔

جب چین میں لانگ مارچ چل رہا تھا تو اس مارچ میں چوراسی ہزار لوگوں نے مارچ کا آغاز کیا لیکن منزل پر صرف آٹھ ہزار ہی پہنچ پائے۔دوران سفر ہر کسی کے پاس دو جوڑے سوٹ اور دو ہی بستر تھے لیکن مائو کے پاس ایک جوڑا اور ایک ہی بستر تھا۔کسی نے پوچھا کہ آپ تو انہیں راہنمائی فرما رہے ہیں توآپ کے پاس کم کیوں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا ایک کے ساتھ بھی گزارا ہو سکتا ہے لیکن میری عوام کے پاس دو ہونے ضروری ہیں،وہ اسی صورت میں میرے ساتھ چلیں گے۔لیکن ہمارے ہاں سب الٹ ہے کہ لیڈران کے پاس تو 95 N ماسک ہوگا لیکن عوام بیچاری ننگ بدن اور بنا ماسک ان صاحبان کے نعرے لگانے کے لئے مر رہے ہوتے ہیں کہ آوے ای آوے،جیتے گا بھئی جیتے گا۔مگر لیڈران کے لیے عوام کی اہمیت پانچ روپے کے ماسک جتنی بھی نہیں ہے۔قصور راہنماؤں کا نہیں ہے ہم عوام کا بھی ہے جو نہیں سوچتے کہ ان کی ترجیح ان کا پیٹ بھرنے کے لئے ایک پلیٹ بریانی ہے یا پھر زندگی بچانے والا پانچ روپے کا ماسک؟یقین جانئے جب عوام کو یہ شعور آگیا کہ ان کی زندگی میں کس چیز کی ترجیح ہے اسی دن پاکستان میں عوامی شعور کا سورج طلوع ہوگا۔اور وہ دن ایسے نام نہاد سیاستدانوں کاآخری روز ہوگا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔