دھوبی کا کتا یا دھوبی کا کتکا؟

گذشتہ چند ماہ سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس  پر یہ تحریر گشت کررہی ہے۔ جس میں معروف محاورے  “دھوبی کا کّتا، گھر کا نہ گھاٹ کا”  کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس محاورے میں لفظ ’’کتّا‘‘ نہیں بلکہ ’’کتکا‘‘ ہے۔

پھر اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ چونکہ کتکا بہت بھاری ہوتا تھا اس لیے اس کو دھوبی گھر لے کے نہیں جاتا تھا اور گھاٹ پر چھوڑ نہیں سکتا تھا کہ مبادا کوئی چوری نہ کرلے،  اس لیے اس کو راستے میں کسی محفوظ جگہ رکھ دیا جاتا تھا۔

یہ تحقیق کس نے کی اس کا ہمیں نہیں پتا لیکن،  اس تحقیق کو ماننے میں چند باتوں کی وجہ سے تامل ہے۔

(۱) لغات میں یہ محاورہ اسی طرح لکھا گیا ہے۔فیروز اللغات کے مطابق اس محاورے کا  مطلب جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو،  بے کار نکما آدمی ، نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا۔ جب ہم لغت مرتب کرنے والوں کو تحدّی دیں تو اس کے پیچھے کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے محض خیالی باتیں نہیں۔

(۲)  دھوبی عموماً ایک گدھا ساتھ رکھتے تھے اور سارا بوجھ وہی اٹھاتا تھا۔ جب کپڑوں کا گٹھڑ گدھے پر لادا جاتا تھا تو اس میں دھوبی کے وزن اٹھانے کی بات کہاں سے آگئی۔

(۳) کتکا  ایک سونٹا ہوتا ہے۔ وہ پہلوانوں والا مگدر نہیں ہوتا کہ اس کو اٹھانے میں بے چارے دھوبی کی جان نکل جائے۔واشنگ مشین کی آمدسے پہلےہمارےآپ کے گھروں میں خواتین بھی اس سےکپڑوں کی دھلائی اور بچوں کی ٹھُکائی کرتی تھیں۔

(۴)   بالفرض دھوبی کے پاس گدھا نہیں ہوتا اور کپڑوں کا گٹھڑ وہ خود اٹھاتا تھا تو اس گھٹڑ میں ایک ڈنڈے کو رکھنے میں اس کو کیا قباحت ہوسکتی تھی؟

(۵)  آخری بات یہ کہ جو بات پورے زمانے کو پتا تھی کہ دھوبی اپنے ’’قیمتی‘‘ اور ’’نایاب‘‘ سونٹے کو کہیں چھپا کر جاتا ہے تو کیا وہ بات اس دور کے چوروں کو نہیں پتا تھی؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ،باغ تو سارا جانے ہے

اس لیے میرے خیال میں ہمیں اس پر یک سُو ہوجانا چاہیے کہ اس میں لفظ ’’کُتّا‘‘ ہی ہے  ’’کُتکا ‘‘ نہیں ۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...