78 سالہ دنیا کا مضبوط صدر

امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور ترین صدر سمجھا جاتا ہے،جب بھی امرکہ میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں پوری دنیا کی نظریں اس الیکشن پر ہوتی ہیں۔امریکی انتخابات دنیا کے واحد انتخابات ہیں جس میں صدر کی نشست پر ہارنے والے کو بھی اتنی ہی شہرت نصیب ہوتی ہے جتنی کی جیتنے والے کو ۔ ہارنے والے صدر کو بھی اتنی ہی اہمیت د ی جاتی ہے جتنا کہ منتخب ہونے والے کو۔حالیہ الیکشن میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کا آمنا سامنا تھا۔الیکشن سے قبل ہی یہ پیش گوئی کی جارہی تھی کہ اس بار زیادہ چانسز جو بائیڈن کے ہیں۔امریکیوں نے دنیا کی پیش گوئیوں کو الیکشن کے ذریعے سے جو بائیڈن کو نیا صدر منٹخب کر کے سچ ثابت کر دیا۔جو بائیڈن امریکی سیاست میں کوئی نیا نام نہیں ہے۔وہ امریکی سینیٹ ،خارجہ امور کی کمیٹی اور بطور نائب امریکی صدر کے اپنی  خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

جو بائیڈن امریکی  ریاست پنسلوانیا میں پیدا ہوا۔دس کی عمر میں اس کا خاندان اپنی معاشی حالات کی بہتری کے لئے پنسلوانیا سے دلآویر ہجرت کر گیا۔ابتدائی تعلیم سے لے کر قانون کی ڈگری تک کی تعلیم اسی ریاست سے حاصل کی۔1968 میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اسی ریاست میں اپنی لا فرم بنا کر وہاں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔چونکہ ان کا تعلق امریکی ڈیموکریٹ پارٹی سے تھا تو اس کی پارٹی نے کہا کہ تم اپنی ریاست سے سینیٹر کا الیکشن لڑو۔جو بائیڈن ذہنی طور پر اس انتخابات میں شمولیت کے لئے تیار نہیں تھا۔ایک وجہ یہ تھی کہ ابھی وہ عملی زندگی میں داخل ہی ہوا تھا اور دوسرا اس کا مخالف یعنی حریف پارٹی ری پبلکن کا مضبوط امیدوار تھا۔جس کا نام جے کیلب تھا۔جے کیلب اس دور کا مقبول ترین لیڈر تھا۔لیکن پارٹی کے اعتماد کے لئے جوبائیڈن نے سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا عندیہ دے دیا۔تاہم اس نے اس الیکشن کو اپنی عزت اور زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیا۔جو بائیڈن نے اپنی پوری فیملی کو اس الیکشن میں کوئی نہ کوئی ڈیوٹی سونپی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ الیکشن ضرور جیتیں گے۔بالآخربائیڈن یہ الیکشن جیت گیا لیکن اس کی زندگی میں ایک ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا۔

ہوایوں کہ الیکش کے فورا ً بعد اس کی فیملی کا ایک روڈ ایکسیڈنٹ ہوا اور اس کے نتیجے میں اس کی بیوی اور ایک بیٹی جان کی بازی ہار گئے جبکہ اس کے دونوں بیٹے شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں ہی ایک کمرے میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھے۔گویا جو بائیڈن مکمل طور پر ذہنی و جسمانی طور پت ٹوٹ چکا تھا۔مگر اس کی پارٹی نے اس کی ہمت بندھائی اور اسے زندگی جینے کا حوصلہ دیا۔جو بائیڈن نے اپنی زندگی کا پہلا حلف بطور سینیٹر ہسپتال کے ایک کمرے سے جہاں اس کے دو بیٹے زخمی حالت میں تھے وہاں سے اٹھایا۔اس کے بعد جو بائیڈن تین دہائیوں تک سینیٹر رہے اور اپنی خدمات امریکہ کے مختلف محکموں میں سرانجام دیتے رہے۔1977 میں انہوں نے دوسری شادی کی۔انہوں نے بطور سینیٹر زیادہ تر کام خارجہ تعلقات کمیٹی کے چئیرمین کے طور پر کیا۔

2008  میں جو بائیڈن باراک اوباما کی جگہ پر الیکشن کا امیدوار تھا لیکن پارٹی قیادت نے باراک اوباما کے حق میں فیصلہ کیا۔بائیڈن نے اس فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور باراک اوباما کا مکمل ساتھ دیا۔الیکشن جیتنے کے بعد باراک اوباما نے انہیں نائب صدر کے طور پر منتخب کر کے اپنے سب سے قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں شامل کیا۔اوباما جب تک صدر رہا جو بائیڈن اس کا نائب رہا۔ان کی خدمات کے عوض باراک اوباما نے انہیں امریکہ کے سب سے بڑا سول اعزاز medal of freedom سے بھی نوازا۔یہ اعزاز اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ باراک اوباما کے کس قدر قریب تھا اور دوسرا اس کی وہ خدمات جو کہ انہوں نے بطور نائب صدر اور بطور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کے سرانجام دیں اس کا اعترف تھا۔جو بائیڈن کی خدمات کی اگر بات کی جائے تو انہوں نے روس کے خلاف بہت کام کیا۔انہوں نے NATO کو وسیع کیا یعنی امریکی اثر رسوخ کو روس کے مقابلہ میں زیادہ کیا۔کیونکہ انہوں نے روس کے حامیوں کو توڑ کر نیٹو میں شامل کیا ۔یہ اپنے ملک کے لئے بہت عظیم کام تھا جو کہ بائیڈن نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے سرانجام دیا۔1990 میں انہوں نے گلف جنگ کی اگرچہ مخالفت کی تھی تاہم نائن الیون کے بعد اس کے خیالات تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔اس کی سوچ بدلنے لگی،اس نے فیصلے پینٹاگون سے لینا شروع کر دیے۔گویا وہ پینٹاگون کی آنکھ کا تارا بن گیا اور یہی بات ایک امریکی صدر کیلئے کارگر اور موثر بھی ہوتی ہے۔

78 سال کی عمر میں اب وہ امریکہ کا صدر ہے۔امریکی تاریخ میں اتنا بوڑھا شخص کبھی صدر نہیں بنا۔لیکن صدارت کے لئے عمر نہیں بلکہ سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔بڑھاپے کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ امریکی عوام نے اسے منتخب کر کے ایک مثال قائم کر دی۔اس کی وجہ اس کا امریکہ کے ساتھ وفاداری اور ایمانداری ہے۔جس کی ایک مثال پیش خدمت کرتا ہوں کہ چند برس قبل اس کا بیٹا کینسر جیسی موذی مرض کا شکار ہو گیا اور اس کے پاس اپنے بیٹے کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ اپنا گھر فروخت کر کے اپنے بیٹے کے علاج پر خرچ کرے گا۔لیکن اسی دوران باراک اوباما کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنے اکائونٹ اور چند دوستوں کی مدد سے اسے گھر فروخت نہ کرنے پر آمادہ کیا اور بائیڈن کے بیٹے کے علاج کے لئے مدد کی۔یہ ہوتی ہے دوستی اور اپنوں سے وفاداری۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جو بائیڈن اپنی خارجہ حکمت عملی میں کیا تبدیلیاں لاتا ہے۔اگرچہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کسی صدر کے تابع نہیں ہوتی بلکہ وہ اداروں کے مطابق ہوتی ہیں۔تاہم پھر بھی وقت بتائے گا کہ  78 سالہ یہ دنیا کا طاقتور ترین شخص دنیا کے ساتھ کیسے تعلقات استوار کرتا ہے۔ابھی سب کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس بات کے لئے ہمیں وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔