حفصہ کے بابا شہید ہوگئے ہیں

نگہت کا میسج آیا تو بھی پوری طاقت سے دل و دماغ نے انکار کیا۔

تسلی کے لیے نگہت کو میسجز کیے تو جواب نہ آیا، اتنے میں سمیہ کی وال پر دیکھا کہ واقعی حفصہ اور احمد کے بابا، نگہت کے شوہر ، ہمارے بھائی،اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رکن، شعبہ مالیات کے سابق ناظم محمد عظیم بھائی شہید ہوگئے ہیں۔

میں نے نگہت کی سچائی اور خلوص کو اس کی تحریر سے اخذ کیا اور یوں ہماری دوستی ہوگئی،دل چاہتا تھا کہ اس کی کہفی زندگی کا راز جانوں، اسے بھاگتا دوڑتا دیکھتی تھی،اکیلے احمد کو ہسپتال لے جاتا دیکھتی تو خیال آتا کہ پوچھوں کہ تمھارے شوہر کہاں ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟مگر مجھے یہ بے جا مداخلت لگتی اور یوں میں اس سوال کو چھوڑ دیتی۔

دو دن پہلے پھر اس کی کسی پوسٹ کو پڑھ کر احساس ہوا کہ اس سے پوچھوں مگر ہمت نہ ہوئی۔

وہ بھی کتنی بہادر ہے کہ اس نے بھی کبھی یہ نہ بتایا کہ وہ کتنا بڑا پہاڑ سر پر لیے پھر رہی ہے،کیا کچھ میری بہن اکیلے جھیل رہی ہے۔

بچوں کا تذکرہ بھی میں نے خود کیا تو احمد کے متعلق بتایا ورنہ تو اس نے خود سے یہ بھی بتانے کی کوشش نہ کی۔ میں نے ہمیشہ نگہت کو مثبت ہی دیکھا، کبھی ہمت ہارے ہوئے نہ دیکھا ۔وہ مجھے کبھی تلخ نظر بھی آئی تو یہی سوچا کہ ملک کے اور پھر اس شہر کے حالات ہی ایسے ہیں۔مگر وہ بہت کچھ مزاح بھی کہہ جاتی۔اسے نارمل انسانوں کی طرح اتار چڑھاؤ میں دیکھا کبھی نہیں اندازہ ہوا کہ وہ کرب کا طوفان ساتھ لیے چل رہی ہے۔

ابھی چند دن پہلے ہی بھائی کے حوالے سے تو وہ مجھے دلاسہ دے رہی تھی، اس درد کو اپنا درد کہہ رہی تھی، کہہ رہی تھی دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے تب بھی میں نے اسے دوست کی محبت سمجھا، اصل نہ جان پائی۔اسے کہا کہ بھائی کے لیے اب لکھتی ہوں تو لاک کر دیتی ہوں تاکہ پڑھنے والے بھی پریشان نہ ہوجائیں اس نے کہا کہ “نہیں !لکھا کرو” اس کے بعد دو پوسٹس ان لاک کیں۔

مجھے کیا پتا تھا کہ میری پیاری جو مجھے حوصلہ دے رہی ہے، خود جہادی زندگی میں ہے۔ میرے نزدیک نگہت کی زندگی جہاد ہی تو ہے کہ اکیلی عورت نیک صالح محبت کرنے والے شوہر کا غم پال کر اس کی اولاد کی شاندار تربیت کر رہی ہے۔معذور بچے کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔

حفصہ کوئ معمولی بچی نہیں ہے،ہو بھی کیسے سکتی ہے؟اس کے والدین ہی غیر معمولی ہیں۔اگر آپ حفصہ کو جاننا چاہتے ہیں تو یہ پڑھیے۔

چلو کہانی لکھتے ہیں ……

آپ لکھیں امی ۔۔۔۔۔ امی لکھنا شروع ہوئیں۔۔۔۔۔

ایک بچہ تھا وہ بہت نیک تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی! ۔۔۔یہ بہت نیک کیا ہوتا ہے ؟

بچہ ہوتا ہی نیک ہے۔بس یہ لکھ دیں کہ ایک بچہ تھا ۔اچھا چلو کاٹ دیا یہ جملہ ۔۔اب کہانی یہ ہے کہ

ایک بچہ تھا ۔وہ سب کی بات مانتا تھا

سب کی بات ؟ سب کی بات کیوں مانتا تھا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب کہ بات مانی جائے ؟ کیا اس کی اپنی کوئی بات نہیں تھی ؟ وہ سب کی بات کیسے مانتا تھا؟

اللہ ۔۔۔۔!

چلو پھر ایسے کرتے ہیں کہ یہ لکھتے ہیں

ایک بچہ تھا ۔وہ اچھے کام کرتا تھا ۔

وہ سب کی مدد کرتا تھا سچ بولتا تھا صاف ستھرا رہتا تھا ۔۔۔۔۔۔ابھی اتنا ہی لکھا تھا کہ کھی کھی کھی

شروع ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اب کیا ہوا ؟ امی ! یہ اتنا اچھا بچہ کہاں پایا جاتا ہے ویسے ؟

ہم اپنی جھنجھلاہٹ کو چھپاتے ہوئے ۔۔۔ ہوتے ہیں کیوں نہیں ہوتے ۔

امی ایسے بچے صرف کہانیوں میں ہوتے ہیں جو سب کی بات مانتے ہیں کبھی روتے نہیں ہیں ضد نہیں کرتے ۔میں نے تو کسی کو بھی ایسا نہیں دیکھا ۔۔۔۔ ہی ہی ہی

ہم م م م : چلو ٹھیک ہے کہانی میں ہوتے تو ہیں نا ، کہانی اسی کو کہتے ہیں جس میں آئیڈیل ہوں ۔پھر تصور میں کھو کر گویا ہوئے، “ویسے ہم بھی بہت اچھے بچے تھے جو ملتا تھا کھا لیتے تھے، جہاں امی بٹھاتی تھی بیٹھ جاتے تھے ،بھی امی کو تنگ نہیں کیا۔

کھی کھی کھی کھی ہی ہی ہی دوبارہ شروع،”کیوں یقین نہیں آیا کیا؟”

“ایسے تو اپنے آپ کو سبھی اچھا کہتے ہیں ۔یہ تو ان کے بڑوں سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے بچے چھوٹے میں کیسے تھے لیکن امی ۔۔!!!یہ سارے بڑے بچپن میں اچھے تھے تو یہ گندہ بچہ کہاں سے آتا تھا؟” ہی ہی ہی ہی ہنس ہنس کے برا حال

“توبہ ۔۔۔!!مجھے ایسی کہانی لکھنی ہی نہیں آتی ہے ،خود لکھ کے دکھاؤ ذرا ۔۔۔۔۔۔۔!

“دکھاتی ہوں”

کچھ دیر تک نوٹ بک اور پنسل پکڑے مصروفیت رہی، تھوڑی دیر کے بعد

 “کہانی کا عنوان ہے سائبریا کی سیر”

ہم ( بدلہ اتارنے کے موڈ میں ) “یہ سائبیریا کون جاتا ہے سیر کرنے ؟”

جواب انتہائی اعتماد سے

“کوئی نہیں جاتا جبھی تو میں کروارہی ہوں سیر ۔”

ہم لاجواب۔دوسرا وار کیا

“اتنی سردی کی جگہ سیر ۔۔۔۔؟ کراچی والے نہیں جاسکتے ہیں۔”

 فورا جواب :” کراچی والوں کو کون لے کر جارہا ہے میں اپنی پھپھو کو لے کر جارہی ہوں۔”

ہم لاجواب ۔ “پھر سائبریا بھی سائیکل پر جارہے تھے وہ بھی کمیٹی کے پیسوں سے”

اور آگے سننے کے لیے آپ کو اپنی بچپن کی سنی گئی ساری کہانی کو ذہن سے کھرچنا پڑے گا کیوں کہ اس سیر میں وہ ساری باتیں ہیں جو کہ ایک بچہ ہی سوچ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

بچوں کے ذہن میں موجود خیالات کی دنیا کو اگر لکھا جائے تو شاید وہ بڑوں کے لیے ناقابل قبول ہونگی لیکن بچے ایسی کہانیوں کو پسند کرتے ہیں جس کو ہم اوٹ پٹانگ کہتے ہیں۔

میں نے ایسی اوٹ پٹانگ کہانیاں خوب سنائی ہیں ۔قسط وار بھی اور فرمائشی بھی۔

باقی تو تین چار سال کے بچوں کے لیے جو عمومی کہانیاں ہوتی ہیں وہ کہانیاں ہی سکھاتی ہیں کہ کالا رنگ بد صورت ہوتا ہے ۔جھوٹ کیا ہوتا ہے ۔دوسروں کو دھوکہ کیسے دیتے ہیں ؟ بد تمیز کیسے بنتے ہیں ؟ ساری خوبیاں ہونے کے باوجود بھی کوئی ایک” بری عادت” سب پر حاوی ہوتی ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔

یقین نہ آئے تو ذرا چھوٹے بچوں کی عمومی کہانیاں اٹھا کر پڑھ لیں یا یو ٹیوب میں سن لیں ۔۔۔۔۔۔۔لالچ ،دھوکہ جھوٹ فریب، سوتیلی ماں کا ظلم ، عشق و محبت یہ وہ تصورات ہیں جو بچہ کہانیوں سے مثالوں کے ذریعے سیکھ رہا ہے۔ بچے تو فطرتی طور پر نیک ہوتے ہیں ان کو جھوٹ اور دھوکے کا کیا پتہ ؟

نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں نہ ہی دھوکہ دیتے ہیں، ہر پیار کرنے والا ان کے لیے خوب صورت ہوتا ہے، نہ ہی وہ امیر و غریب کی تفریق کرتے ہیں، یہ تو ہم ہیں جو ان باتوں کو کر کے دکھاتے ہیں ۔ اس لیے بچوں کے لیے کہانیان سناتے وقت اور انتخاب کرتے وقت ذرا محتاط رہیں کہ کہانیاں ذہن میں تصورات اور خیالات کا ایک نیا جہاں آباد کرتی ہیں۔

تحریر: نگہت حسین

حفصہ ایک دانشور بچی ہے،حساس بچی ہے، ذرا دیکھیے کس طرح بھائی کو حوصلہ دے رہی ہے۔

ہم ہسپتال میں محمد احمد کو لیے کھڑے تھے ۔نمونیہ کی تشخیص تھی لیکن کل صورتحال زیادہ خراب ہوگئی، ایمرجنسی میں ہسپتال لے جانا پڑا ۔

کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد ایک نیک دل اسٹاف کے فرد نے ہمیں ایک ڈاکٹر کے خالی کمرے میں جگہ دی کہ احمد کو وہاں موجود بستر پر لٹادیں۔

احمد کو لٹا کر بچی کو کہا کہ اس کے پاس بیٹھو گرنے نہ دینا میں بس فرض پڑھ لوں۔

احمد تھوڑی تھوڑی دیر میں کراہ رہا تھا، ایک دم رونے لگا شاید بہن کو پاس دیکھ کر زیادہ رونا آیا تھا ۔

میں وضو کررہی تھی کہ آواز آئی، آٹھ سالہ باجی کی چھ سال کے بھائی سے باتیں۔۔۔

“دیکھو بھیا، مجھے پتہ ہے کہ آپ کو بہت تکلیف ہورہی ہے۔اسی لیے آپ رورہے ہیں۔مجھے بھی تکلیف میں بہت رونا آتا ہے ۔

باجی کی یہ تسلی سن کر احمد تھوڑی دیر کو خاموش ہوا۔لیکن پھر رونے لگا ۔۔۔۔

اچھا آپ کو رونا آرہا ہے نا ۔دیکھو میں آپ کے آنسو پونچھ رہی ہوں۔تھوڑا اور رو لو پھر آپ کا دل ہلکا ہو جائے گا

دیکھو بھیا ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے

(ایک انٹلیکچوئیل ڈائیلاگ ضرور ہوتا ہے گفتگو میں۔ ۔یہ یقینا سنا ہوا یا پڑھا ہوا جملہ تھا )

لیکن حیرت انگیز طور پر محمد احمد نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا پیار بھرا لمس محسوس ہوتے ہی رونا ختم کردیا تھا اور آنکھیں کھول کھول کر باجی کو دیکھ رہا تھا ۔

کچھ نہ سمجھنے کے باوجود احمد کی احساسات و جذبات کو محسوس کرنے کی صلاحیت حیرت انگیز طور پر بہت اچھی ہے۔لہجے کے اتار چڑھاؤ اور نرمی گرمی کو ٹھیک اسی طرح سمجھتا ہے جیسا کہ کہنے والے کا مقصد ہوتا ہے۔

یہ سارے جملے بچی نے پوزیٹو پیرنٹنگ کی گھر پر مشق کی وجہ سے سنے ہیں اور ان کی بغیر سوچے سمجھے ادائیگی کی ہے۔

مجھے بہت زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ میں نے کبھی نہیں بتایا کہ کسی کو تسلی ایسے دیتے ہیں ۔

اکثر والدین کی طرح کبھی کبھی یہ شکایت ہوجاتی ہے کہ بچی نہیں سنتی میری بات ۔

لیکن آپ نے دیکھا بچے سب سنتے ہیں ۔ان کے سامنے کیا ماڈل کیا جارہا ہے اور کیسے، کیوں کہ آج کل اماں پوزیٹو پیرینٹنگ کو سیکھنے اور عمل کرنے میں مصروف ہیں ۔

اس کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بچوں کے احساسات کو سمجھیں اور ان کو اس کا اظہار کرنے دیں، یہ بتائیں کہ جتنی تکلیف آپ کو ہے وہ مجھے بھی محسوس ہورہی ہے، جتنے آپ اپ سیٹ ہیں ہم بھی ہیں۔پھر مسئلے کے حل کے لیے دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔۔یعنی آؤ مل کر غم بٹائیں اور پھر خوش ہوجائیں۔

یہ ہے ایموشنل انٹیلیجنس جس کی ہم سب کو بہت ضرورت ہے۔

آپ کو نہیں لگتا کہ یہی احساسات اور جملے عام ہونے کی ضرورت ہیں؟ بجائے اس کے کہ تکلیف کے احساس کا دم گھونٹ کر گھٹن پیدا کی جائے ۔رویوں میں منفیت پیدا کی جائے اور اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے کی کیفیت میں اضافہ کر کے ایک طبقے کو ساری زندگی اس کا ہی شکار کر دیا جائے۔

اس واقعے سے ہم نے تو بہت سے سبق لیے ۔

بچے ہمارے استاد ہیں کیوں کہ فطرت ہر ہوتے ہیں ذرا ان کی شاگردی اختیار کر کے تو دیکھیں۔

تحریر:نگہت حسین

وہ نہیں بھول پائے گی یہ سب،بے شک وہ آٹھ سال کی ہے مگر وہ عام بچوں سے بہت مختلف ہے وہ اس ستم کو ہمیشہ یاد رکھے گی، اس ظلم کو کھیل کود یا بچپن کی عادات میں مگن ہو کر نہیں بھولے گی،یقین سے کہتی ہوں میں۔مگر میری رب العالمین سے شدت سے دعا ہے کہ اللہ حفصہ کے اس غم کو کندن بنادے اور اسے اس کے ذریعے مثبت رخ عطا فرما، وہ آسمان کا ستارہ بن کر چمکے،لوگوں کو راہ دکھانے والی بنے،نابیناؤں کو بینائی دینے والی بنے،اپنے عظیم والد کی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھے۔میری دعا ہے میری حفصہ کے لیے، پیاری حفصہ کے لیے۔

کیا جرم تھا عظیم بھائی کا؟ یہی ناں کہ وہ عظیم تھے اور عظمت کے راستے پر چل رہے تھے۔بس یہی جرم ہوگا جو ان کا خون ناحق اور بے دردی سے بہایا گیا کہ اس عفریت زدہ معاشرے میں سب سے بڑا جرم ہی یہ ٹھہرا۔یہ خون ناحق رائیگاں نہیں جائے گا مجھے یقین ہے کیوں کہ میں نے حفصہ کو بے خودی کے عالم میں تابوت پر سر رکھے دیکھا ہے،میں نے اس کی ڈرائنگ میں اس کا انتظار دیکھا ہے تو مجھے یقین ہے بلکہ ہم سب اہل ایمان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ حفصہ کے بابا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، کبھی تووقت حساب آئے گا۔

نگہت تم نے یہ بھی تو بتایا تھا کہ احمد کی سمجھنے کی حس تیز ہے وہ جذبوں کو پہچاننے والا بچہ ہے دیکھو بیمار ہوگیا ہے ہمارا شہزادہ۔

میری بہن،میری دوست ،میری عزیزہ ، تمھیں کیسے ہمت دلاؤں؟کیسے تمھارا درد بانٹوں؟ مجھے نہیں آتا مجھ سے نہیں ہوگا میں نے دیکھا ہے کہ درد میں قرار کسی کے کہنے سے نہیں آتا۔مگر دعائیں تو کرسکتی ہوں تمھارے لیے، دعائیں ہی دعائیں بہنا۔

سچ کہوں تو تم نے مجھے شرمندہ کردیا ہے، تم نے جو حوصلہ دیا، جو تسلی دی اور یہ سب دل میں رکھا، اف !! میں حیران ہوں تم واقعی الگ ہو۔جبھی تو تمھارے غم کی لہریں مجھ تک پہنچ گئیں تھی اور میں نے بلاوجہ ہی ایک اجتماعی محبت کا سوچ کر مسنگ پرسنز کی پوسٹ لگائی تھی۔میری پیاری نگہت تمھارے شوہر، ہمارے بھائی نذر پوری کر کے کامیاب ہوگئے ہیں۔اطمینان سے خوش خوش حسین جنتوں کے وارث بنیں گے عظیم بھائی تم دیکھنا انشاء اللہ۔

ہم سب تمھارے قرض دار ہیں اور تم جیسے بہت سے خاندانوں کے۔ نہ جانیں ہم یہ قرض کیسے اتاریں گے؟؟؟؟؟؟؟