آنسو

ہر طرف خوشی نظر آرہی تھی۔۔۔پرندے چہچہا رہے تھے۔۔۔پھولوں کی خوشبو دل کو بہا دینے والی تھی۔۔۔ہری بھری گھاس۔۔۔آسمان نیلا کالا۔۔۔ہلکی پھلکی پھوار۔۔۔موسم نہایت ہی خوشگوار تھا۔۔۔

لیکن کیا یہ خوش بھری زندگی میرے لیے بھی ہے؟؟

 میں اپنے آپ سے سوال کرتی کرتی ادھر سے ادھر چلی جارہی تھی۔آنسو جو ضبط کیے تھے وہ دل پر بوجھ بن چکے تھے،اچانک ایک لمحے کو میں رکی۔۔۔

ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے مجھے آواز دی اور اپنے پاس بلایا ہے۔۔۔لیکن یہ کیا جس نے آواز دی وہ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔۔۔دل میں خوف پیدا ہونے لگا ۔۔۔سانس اکھڑنے لگی۔اچانک وہی جملہ میری سماعت سے ٹکڑایا۔اب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ کوئی میرے قریب ہے۔

وہ جملہ دوبارہ میرے ذہن میں گونجا

“اے ظالم وقت آگیا ہے لوٹ چلو”

میرے قدم جو رکے تھے وہ تیزی سے بڑھنے لگے،لمبے لمبے قدم اٹھاتے بادل مزید سیاہ ہو گئے،اندھیرا اور درختوں کی جھر جھری آواز،تیز بارش،آندھی،وحشتناک ماحول،یک دم ہی فضا خوفناک ہو گئی،وہی خوبصورت ماحول جس سے سکون حاصل کرنے آئی تھی وہی میرے گلے میں طوق بن رہا تھا۔۔۔۔۔

موسلادھار بارش،دھند،جس سے مجھے کچھ نظر بھی نہیں آرہا تھا،آنکھیں بند ہونے لگی،غشی طاری ہونے لگی،اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے بھی سب دھندلانے لگا،تاہم اسی کشمکش میں کہ یک دم میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکڑایا اور میں ایک گہری کھائی میں گر گئی…. شور بھی مچایا کوئی مجھے باہر نکالے لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا،بس وہی آواز میری جانب بڑھتی رہی،آنکھیں بند ہونے لگی،کھولنا بھی چاہوں لیکن نہ کھول سکی،

آنکھ کھلی تو خود کو ہسپتال میں پایا،زخموں سےبھرا جسم،تھکی ہاری، زبان بے جان ہو چکی تھی،ایسے لگ رہا تھا کسی نے جکڑ لیا ہے،ماں کو دیکھا تو آنکھیں بھیگ گئی اور بھیگتی ہی چلی گئی،آنسو گال کو چھوتے ہوئے الوداع کہہ گئے،زبان سے آخری بار ایک لفظ ادا ہوسکا،ماں اندھیرا، وہی آواز میری کانوں سے ٹکڑائی اور ٹکڑاتی ہی چلی گئی،اور یکایک آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی،روح فلک کو پرواز کر گئی۔

ہولناک منظر، خوفناک فرشتے،قبر اندھیرے سے بھری،چیخ اور  درد سننے والا کوئی نہیں،مایوسی کاعالم،یاخداکدھرآپہنچی،کیڑے،سانپ،بچھو،آہ مجھے درد ہورہا ہے، کوئی تو مجھے بچائے،قیامت کا منظر،اعمال نامہ خالی،بدی سے بھرا ہوا،

رب نے پوچھا اے بندی! کیا لے کر آئی ہے؟؟جواب میں شرمندگی،جان اس رب کی ملکیت تھی،لیکن اسکا استعمال غلط،

 جان دی, دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہےکہ حق ادا نہ ہوا

آہ…..افسوس مجھ پر،رب کا حکم،عذاب ہی عذاب،زندگی کو تماشہ میں نے بنایا،رب سے ملاقات کا کبھی میں نے سوچا نہیں،لوگوں کی خوشی کبھی مجھے راز نہیں آئی،حسد،کینہ،میرے اندر،موسیقی،ناچ…..آہ !عذاب ہی عذاب،جہنم کی شدت،کبھی رب کو یاد نہیں کیا،کبھی خود بھی خوشی حاصل نہیں ہوئی،کتنی نافرمان تھی میں،رب کی بھی،ماں باپ کی بھی۔

یا اللّہ معاف کردے۔!جواب ملا : کوئی فریاد سنی نہیں جائے گئی، تو دھتکاری ہوئی ہے،تجھے گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آئی،لوگوں پر تعویذ گنڈے کرتے ہوئے شرم نہیں آئی،تیرے لیے رحمت کے دروازے بند کر دیے گئے،اب تو جہنم کا ایندھن بنے گی،یہی تیرا ٹھکانہ ہے۔

ہم آج دنیا کی زندگی میں کتنے ہی مصروف ہوگئے ہیں ،دنیا کی خواہشات کے پیچھے چلنے لگے ہیں،کیا ہم دوزخ کے عذاب کو یاد کرنا بھول چکیں ہیں،جو ہماری نفس کی خواہشات کے ذریعے ہمارے اعمال میں شامل ہو چکا ہے،ہمیں اپنے آپ پر قابو پانا ہوگا،کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے ،باقی رہ جانے والی آخرت ہے۔

تو عزیزوں! اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو،اپنے اعمال بہتر بنانے کی کوشش کرو تاکہ آخرت کے عذاب سے بری ہوسکو،جنت کو پانے کے لیے جدوجہد کرو،یہی فلاح کا راستہ ہے۔۔

اللہ ہمیں خواہشات کے پیچھے چلنے سے بچائے اور جنت کو ہمارے لیے مسخر کر دے (آمین)