کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے

سردیوں کی خنکی سے بھر پور سرد رات ، گرم بستر اور نیند کا غلبہ۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلی تو اذان کی آواز کانوں میں پڑی۔ نیند کا غلبہ اس قدر تھا کہ اذان کی آواز کو نظر انداز کیا اور دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد موبائل پر الارم بجا۔ اور بج کر بند ہو گیا۔ دوبارہ آنکھ لگ گئی۔ لیکن ضمیر کا الارم بجتا رہا۔

سوچا کہ ابھی تو نماز کے لیے وقت ہے۔ کچھ دیر بعد اٹھتی ہوں۔ لیکن ذہن میں مؤذن کی صدا گونجنے لگی۔

“الصلاة خيرم من النّوم “

” نماز نیند سے بہتر ہے۔ “

نفس کو چونکہ نیند سے پیار تھا۔ اس لیے سوچا کہ روزانہ تو نماز فجر ادا کرتی ہوں۔ اگر آج نہ بھی کی تو کیا چلا جائے گا۔ لیکن اقبال کے اشعار ذہن میں گونجنے لگ گئے۔

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے

ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمھیں پیاری ہے

بلآخر نفس اور ضمیر کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی اور میں نماز فجر کے لیے اٹھ گئی۔ اس وقت میں نے اپنے آپ سے یہی سوال پوچھا کہ مجھے تو تہجد کی عادت کو پختہ کرنا ہے اور میں فرض نماز ہی چھوڑنے جا رہی ہوں۔

نفسانی لغزشیں ایسے ہی انسان کو نیکی سے دور کرتی ہیں۔ لیکن ان کو مات دینا ضروری ہے۔ اس اندرونی جنگ میں سرخرو ہونا ضروری ہے۔ یہی چھوٹی چھوٹی جنگیں ہمیں اندر سے ناقابل تسخیر بناتی ہے ،ایمان کو بڑھاتی ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ایمان کے رستے پر ثابت قدم رکھے۔