ماحولیاتی تمدن کا چینی تصور

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح چین میں بھی اقتصادی سماجی ترقی کے لیے “پنج سالہ منصوبہ بندی” کا ایک مضبوط ڈھانچہ موجود ہے جسے عوامی امنگوں کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ابھی حال ہی میں اس حوالے سے قومی اقتصادی و سماجی ترقی کے 14ویں پنج سالہ منصوبے اور 2035 کے طویل مدتی ترقیاتی اہداف  کے حصول کے لیے ایک جامع لائحہ عمل کی منظوری دی گئی ہے۔جس کے مطابق  چین گرین ترقی کو آگے بڑھائے گا ، انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دے گا ، ملک میں پائیدار ترقیاتی حکمت عملی پر عمل پیرا رہتے ہوئے حیاتیاتی بقاء اور گرین ٹرانسفارمیشن کے تحت اقتصادی سماجی ترقی کی جستجو کی جائے گی۔

ایک ایسے وقت میں جب دنیا کووڈ۔19کے باعث بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے ، چین نے اقتصادی سماجی ترقی اور انسداد وبا میں ہم آہنگی کے تحت “گرین ترقی” پر زور دیا ہے اور  مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے 2060تک کاربن سے پاک ترقی کا عزم ظاہر کیا ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں سیشن  سے اپنے خطاب میں دنیا پر زور دیا کہ ایک “سبز انقلاب” کی جستجو کی جائے ،  ترقی اور زندگی کے لیے  سرسبز راہ کا انتخاب کیا جائے۔ انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ پیرس موسمیاتی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں تاکہ عالمی سطح پر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی ممکن ہو سکے اور  گلوبل وارمنگ جیسے سنگین مسئلے سے احسن طور پر نمٹا جا سکے۔

چین نے عملی طور پر تحفظ ماحول میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔13ویں پنج سالہ منصوبے کے دوران گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی ، فضائی آلودگی کی روک تھام ،حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی انحطاط کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات متعارف کروائے گئے۔سال  2018میں چین کے دستور میں  ماحولیاتی تمدن کا تصور شامل کیا گیا جس میں ترقی کے لیے جدید ،گرین اور اشتراکی اپروچ کو اہمیت دی گئی۔  ماحولیاتی تمدن کے تصور کو چین کے دیہی علاقوں میں بھرپور فروغ ملا جہاں زراعت اور دیہی سماج کی یکساں اور معیاری گرین ترقی کے تحت غربت میں کمی لائی گئی  ،معاشرتی ناہمواری جیسے مسائل حل کیے گئے اور  فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنایا گیا۔اسی تصور کے تحت فطرت اور مادی ترقی میں ہم آہنگی کو آگے بڑھاتے ہوئے” ماحولیاتی سیاحت” جیسے نئے شعبہ جات سامنے آئے اور چین بھر میں معیشت ،سماج اور تحفظ ماحول کو نمایاں فروغ ملا۔

دنیا کے سب سے بڑے ترقی پزیر ملک اور دوسری بڑی معاشی طاقت کے طور پر چین اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں ربط کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے۔پیرس معاہدے کی روشنی میں چین توانائی کے استعمال میں کمی اور توانائی کے روایتی ذرائع مثلاً کوئلے اور تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔چین کی کوششوں کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا ہے اور  گزشتہ برس 2019میں “ناسا” کی سترہ برس تک جاری رہنے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2000سے سال2017تک دنیا بھر میں قائم کیے جانے والے نئے گرین علاقوں میں سے ایک چوتھائی چین نے تعمیر کیے ہیں لہذا  چین اس اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے۔حالیہ عرصے میں چین نے  بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت گرین ترقی کے لیے عالمی اتحاد  بھی تشکیل دیا ہے تاکہ ایک سرسبز  بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر سے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کی تکمیل کی جا سکے۔

اس وقت چین میں 13ویں پنج سالہ منصوبے کی کامیابیوں کی روشنی میں چودہویں پنج سالہ منصوبے پر عمل درآمد کی تیاریاں جاری ہیں جو 2021تا 2025تک کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔یہ منصوبہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا بدستور کووڈ۔19کی تباہ کاریوں کا شکار ہے، ایسے میں چین اپنی اقتصادی سماجی ترقی اور ماحولیات کی بہتری کے لیےکیا اقدامات کرتا ہے اور 2060تک کاربن سے پاک ترقی کو کیسے ممکن بنائے گا ، یہ  اہم سوالات ہیں۔اس ضمن میں ایشیائی ترقیاتی بنک چین کے ساتھ شراکت داری کے حوالے سے ایک حکمت عملی وضع کر رہا ہے تاکہ چین کو ماحول دوست اور فطرت سے ہم آہنگ ترقی کی کوششوں میں معاونت فراہم کر سکے۔ چودہویں پنج سالہ منصوبے کے دوران اس شراکت داری کے تحت اعلیٰ معیاری گرین ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔

چین کی کوشش ہے کہ آئندہ پانچ برسوں کے دوران کم کاربن پر مبنی شہری و دیہی ترقی کو فروغ دیا جائے ، پائیدار ٹرانسپورٹ نظام کے تحت گرین شہر آباد کیے جائیں ،ماحول دوست اسمارٹ عمارتیں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں ، حیاتیاتی ماحول کے معیار اور استحکام کو فروغ دیا جائے ،وسائل کے موئثر استعمال کی شرح کو بلند کیا جائے اور ایک بڑے ذمہ دار ملک کے طور پر تحفظ ماحول میں اپنے فرائض احسن طور پر سر انجام دیے جائیں۔