خواب دیکھتی آنکھیں‎

میری سہانی یادوں کا تعلق ان دو آنکھوں سے ہے جو خواب دیکھتی ہیں اور بچپن سے آج تک ان دو آنکھوں نے خواب ہی دیکھے ہیں۔

خواب کا یہ سفر مجھے کتاب نے دیا،کتاب جس سے میری کئی عزیز ہستیوں کا تعلق جڑا ہے۔میں نے اس کتاب اور کتاب کی دی ہوئی خواب دیکھنے والی آنکھوں ہی سے دنیا کو دیکھا اور سوچا تو دنیا مجھے بہت حسین نظر آئی۔

میری ان خواب دیکھتی آنکھوں میں ایک نہیں ہزاروں لاکھوں سہانی یادیں محفوظ ہیں جنھیں میرے دل کی آنکھوں نے محفوظ کر لیا ہے۔

میرا وہ پرانا گھر جس میں پانچ کمرے بڑا سا صحن اور پچھلے حصے میں دو  دالان تھے۔اس گھر کے ہر کمرے میں کتابیں تھیں۔ جو نفس جس کمرے میں سوتا اس کے تکیے کے ساتھ کتابیں جاگتیں اور سوتیں تھیں۔ یوں اس کتابی ماحول میں بڑی ہوتی میں کتاب سے خواب کشید کرنا سیکھ گئی۔

اس سہانی یاد میں امی کے بچوں کے ماہانہ رسالے ہدیہ کرنا بھی شامل ہےاور ابو کی بے نام چھوٹی چھوٹی سی غیر طے شدہ ادبی محفلیں بھی۔

میرے بڑے بھائی کے لائے ہوئے بچوں کے رسالے بھی، جس نے اب آکر یہ بات سمجھائی کہ وہ بچوں والے رسالے ہمارےلیے ہی بغیر کہے، بتائے یا جتائے منگوائے جاتے تھے اور تربیت کا یہ خاموش حصہ میری زندگی میں میں شامل رہا۔

میرے دوسرےبھائی کی کتابوں کا صندوق مجھے ہمیشہ جادو کی نگری لگا وہاں سے بھی وقتا فوقتا سخن سیری کی۔

میری باجی کا اخبارسے لکھائی کرانا اور پھر کتابیں لے کر اتنا پڑھانا کہ پوری کتاب ہی یاد ہوجاتی۔

غرض کہ یہی وہ سیڑھیاں تھیں جنھوں نے مجھے لاشعور سے شعور کی منزل پر لا بٹھایا اور کتاب سے محبت کو پختہ کیا پھر باقی کے خواب میرے اپنے تھے۔

میں تیزی سے پروان چڑھتی کتاب کی محبت سے الکتاب کی محبت میں گرفتار ہونے لگی اور آنکھوں میں خواب وسیع ہونے لگے، ان خوابوں کی بھول بھلیوں میں گم آس پاس کے لوگوں کو شاید میں کبھی پاگل بھی لگتی۔

مگر میری بے چین روح کو قرار نہ تھا

میں حضرت عیسی علیہ السلام کی مسیحائی کے راز کھوجنا چاہتی تھی۔

میں حضرت موسی علیہ السلام  کی پیروی میں نارِ طور  سے کچھ کشید کرنا چاہتی تھی ۔

میں حضرت خضر علیہ السلام  کو راہ نما بنا کر فاصلے ماپنا چاہتی تھی۔

میں دعاؤں کی وہ تاثیر جاننا چاہتی تھی جو رب کریم نے حضرت یونس علیہ السلام  کو مچھلی کے پیٹ میں عطا کی۔

میں حسن یوسف علیہ السلام   میں دیوانی زلیخا اور انگلیاں کاٹ دینے والیوں کا منظر کسی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہتی تھی۔

میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرکے بالترتیب توحید کی حقانیت پانا چاہتی تھی۔

اور آقائے دوجہاں، مولائے کائنات، وجہ تخلیقِ کائنات، خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو کر اس دنیا کو ایک فقیر کی صورت محسوس کرنا اور برتنا چاہنے لگی۔

پھر میں نے جذب کے عالم میں اپنی خواب آنکھوں سے ٹوٹی پھوٹی لکیریں قلم بند کیں ۔ایک دو مصرعے لکھے وہ ابھی نشوونما کے سفر میں ہیں ان کو الفاظ کا زادِ سفر درکار ہے۔

انھی دنوں ابھی جب راستے مبہم تھے، منزلیں انجان تھیں، ابھی کھرے اور کھوٹے کی پہچان نہ تھی، ابھی جب میں اپنی منزل کا تعین نہیں کر پارہی تھی اور میری خواب دیکھتی آنکھیں روز ایک نیا جہان بنارہی تھیں ۔۔۔۔۔

میں ایسی سہیلیوں سے جا ملی جن کے پاس منزل مقصود کا تعین تھا اور راستہ بھی متوازی تھا، میں ان کے ساتھ اس راستے پر چل کر اب ایک راہِ  راست پر تھی، وہ راستہ جو بار بار راہ کے ٹیڑھ بتاتا ہے اور گرنے سے پہلے سنبھال لیتا ہے۔

اس راہ نے اب لوگوں سے محبت کرنا سکھادی ، اپنے لیے نہیں۔۔!! اللہ کے لیے۔

مگر ساتھ ہی ان کی پہچان بھی کرادی ہے جن کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا کہ:

مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاسکتا“۔ (صحیح ـ متفق علیہ)

اب اپنے فیصلے خودہی کرنا آنے لگے ہیں،اب دنیا کا خوف ختم ہونے لگا ہے،ساتھ ہی دنیا کی محبت بھی۔کس سے کیسے ملنا ہے، کتنا فاصلہ رکھنا ہے یہ سب میری آنکھوں نے ان سہیلیوں کے ساتھ مل کر سیکھا جو الکتاب سے آشنا تھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ کتاب نے سوچنا سکھایا ،کتاب نے حق کہنا سکھایا، کتاب نے کسی بھی کمی سے بچایا ، کتاب نے زیادتی سے بچایا ،کتاب نے بوجھ بننے سے بچایا، کتاب نے خوش آمد کرنے اور خوش آمد پسند ہونے سے بچایا۔

زندگی میں ہمیشہ ایک ہی جیسا سب کچھ نہیں رہتا وقت بدلتا ہے، اتار چڑھاؤبھی آتے ہیں، ان حالات میں کوئی تحریر ساتھ نبھاتی ہے، کسی کا قول حوصلہ بڑھاتا ہے، اداسی کے جان نچوڑتے لمحوں میں میری سہیلی بنی کتاب ۔میری رازداں بنی کتاب ۔جس نے مجھے کبھی کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔

مگر ان سہانی یادوں کو یہاں لکھتے  ہوئے یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ: کتاب ان آنکھوں میں خواب بنتی ہے جو اس سے سودے بازی نہیں کرتے،جو اسے محض مقصد کے حصول تک یاد نہیں رکھتے جن کی زندگی کا یہ جُز نہیں کُل ہوتی ہے۔ جو محض خط کشید جملوں سے کام نکالنے والے نہیں ہوتے۔

کتاب اس کی آنکھوں کا خواب ہے جس کی یہ زندگی ہے،جس کے لیے تسکینِ قلب ہے، جس کے لیے اس کا  ساتھ بغیر مادّی مقصد کے لازم و ملزوم ہے۔کسی بھی بے بصیرت اور مادیت پسند نے کتاب سے کوئی فیض نہیں پایا، اگر چہ کمائے اس نے لاکھوں ہوں۔

کتاب کے اصل تعلق کو سمجھے بغیر کتاب پڑھنا تخمین و ظن کے سوا کچھ نہیں، جس سے مادی حرارت تو پیدا ہو سکتی ہے مگر انسان عشق کے سمندر میں غوطے نہیں لگا سکتا۔وہ رومی اور غزالی نہیں بن سکتا ،اویسی اور جنیدی نہیں بن سکتا، شمس تبریز نہیں بن سکتا۔

ہماری عام زندگی میں ہم مذہب سے ظاہری تعلق جوڑتے ہیں تو نورانی قاعدہ اور چند مسنون دعاؤں سے آغاز کرتے ہیں مگر،حقیقی تعلق تو عمر کے چلتے سفر میں پڑھی گئیں کتابیں، کہانیاں، افسانے اور ناول جوڑتے ہیں، اور الکتاب کی گرہ میں باندھ دیتے ہیں۔

میری سہانی یاد میں سب سے بڑی سہانی یاد وہ ایک کتاب ہی ہے جسے میں نے کمرے میں دیکھا ،سرہانے دیکھا، اٹھایا اور پڑھا، زبان پہ جس کا ذائقہ لیا،  جس نےمحبت کرنا اور بے غرض رہنا سکھایا اور پھر صحیح راستے کی کھوج نے اسے الکتاب میں جا بسایا۔