سلگتا کشمیر

ناچ ہے وحشت کا

لٹتی ہیں عصمتیں

ٹوٹتے ہیں بدن

پھوٹتی ہیں آنکھیں

بلند ہیں نعرے آزادی کے

بھوک سے تڑپتی ننھی روحیں

لٹ رہے ہیں سہاگ

لٹ گئی سکھ کی فضائیں

کون کہتا تھا ارض بہشت اُسے

چیخ و پکارکی دُہائی سنو!

اے ابن قاسم

اے شبیر کے پروانے

کہاں ہو؟

بنت حوا کی صدا سنو

اب آہی جائو

دیکھو ! دیکھو!

آنکھیں بھی ہیں نم

ڈوپٹے بھی ہیں اُترنے کو

جنت جیسا کشمیر ہمارا

 اب جلنے کو ہے

کہاں گئے امن کے داعی

روکے کوئی ان سنگینوں کو

منہ نوچے کوئی ان بھیڑیوں کے

سلگتے کشمیر بچانے کو

خاک ہونے سے بچائو

میری جنت کو بچا ئو