پری

وہ روئے جا رہا تھا ،اسکی حالت دیوانوں کی سی تھی۔ایسے روتے ہوئے میں نے کسی مرد کو نہیں دیکھا تھا۔اس کا نام شیر دل تھا اور دل بھی شیروں جیسا ہی تھا۔وہ مضبوط اعصاب کامالک تھا،اور دل کا بھی مضبوط تھا۔اس کی زندگی کے بہت سے مرحلے ایسے بھی گزرے کہ اچھے اچھے دل ہار جائیں پر میں نے اس کو چٹانوں کی طرح مضبوط ہی دیکھا۔

شیر دل اپنے والدین کی دوسری اولاد تھا ۔اس سے بڑا بھائی دلاور خان بھی اپنے نام کی آن بان جیسا تھا پر شیر دل کی بات ہی کچھ اور تھی۔

اسکی کوئی بہن نہیں تھی پر عورت کی عزت کیا ہوتی ہے وہ اچھے سے جانتا تھا۔اسکی نظریں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔

اور اب جب کہ وہ خود بہت اچھا تھا اس کے ساتھ یہ سب ہو گیا کہ جس کا اسے گمان تک نہیں تھا۔

شیر دل کی آہ و زار اسے ماضی سے حال میں لے آئی تھی۔وہ  اپنے پڑے سامنے وجود کو چھو چھو کہ رو رہا تھا۔اور اسکا چھونا بھی ایسا تھا جیسے کوئی شخص کسی کونپل کو بڑے دھیان سے چھوتا ہے۔اس کی جان تھی اس میں اور جو اسکا آج حال تھا وہ صرف اسکی غفلت کی وجہ سے تھا۔

آج سے تین سال پہلے اس نے اپنی پری کی شادی شاہ جہاں سے کر دی تھی اور شادی کے کچھ عرصے بعد ہی وہ اداس دکھائی دینے لگی۔

اس نے اپنے باپ کو کہا بھی یہ شخص اس کے لئے نہیں بنا۔وہ جب میکے آتی آنکھوں کے کناروں پہ اک نمی سی ہوتی تھی۔ماں تو تھی نہیں باپ ہی سب کچھ تھا۔اور وہ جب جب باپ کو خود پہ ڈھائے ستم دکھاتی وہ ٹال دیتا سب ٹھیک ہو جائے گا۔اور پھر سب ٹھیک ہوتا گیا۔اس نے شکایت کرنی چھوڑ دی باپ سے،اس نے باپ کے سامنے رونا چھوڑ دیا۔

اور اک دن سب ٹھیک ٹھیک میں واقعی سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔وہ دنیا سے چلی گئی اور باپ کے لئے آسانی کر گئی۔اب کوئی یہ نہیں کہے گا ہائے طلاق ہو گئی، ہائے اس میں صبر نہیں تھا،ہائے اس کا ہی قصور ہو گا۔اب اس کے باپ کے لئے آسانی ہو گی اور اب کوئی اس پہ مزید ظلم ،جبر نہیں ہو گا اب وہ گہری نیند میں ہے کبھی نہ اٹھنے کے لئے ،کبھی نہ دیکھنے کے لئےکیسے اب اسکا باپ دھاڑیں مار رہا ہے۔مر تو وہ گئی تھی بس ایک واجب  باقی تھا  جنازے کا اب وہ بھی پورا ہو گیا۔اب تو بس اک آہ ہو گی،جو لبوں سے آزاد ہو گی۔لوگ کیا کہیں گے ،اس بات پہ کوئی بات نہیں ہو گی۔

آج شیر دل پچھتا رہا تھا پر اب کیا فائدہ؟وقتی باتوں سے ڈر کر پری کی زندگی ہمیشہ کے لئے داؤ پہ لگ گئی تھی۔اور اب تو بس ملال تھا ۔جس نے ساری عمر ساتھ نبھانا تھا۔