خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں

پوپ فرانسس فرماتے ہیں:

“ہم جنس پرست” افراد بھی (نعوذباللہ) خدا کے بچے ہیں، “خاندان” کا حصہ ہیں لہٰذا انہیں خاندان سے باہر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی زندگی اجیرن بنائی جا سکتی ہے۔ ہمیں کرنا یہ چاہئیے کہ ان کو قانونی تحفظ فراہم کریں تاکہ وہ بھی معاشرے کے قابل قبول افراد بن سکیں۔

ان کے اپنے الفاظ:

“Homosexual people have the right to be in a family. They are children of God,” Francis said in one of his sit-down interviews for the film. “You can’t kick someone out of a family, nor make their life miserable for this. What we have to have is a civil union law; that way they are legally covered.”

پوپ کے اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے دین سے جان چھڑاتے چھڑاتے مغرب آج کس حد تک گر چکا ہے کہ بجائے برائی کو برائی کہنے اور مذمت کرنے کے، عیسائیت کا روحانی سربراہ اس کے حق میں کھڑا ہو کر اسے قانونی تحفظ دینے کی بات کر رہا ہے تاکہ وہ معمولی خلش جو کبھی انسانی ضمیر کو جگا سکے، بالکل ہی بُجھ کر رہ جائے اور یہ قبیح فعل زندگی کا ایک “معمول” (norm) بن جائے۔

اسلام ہو یا کوئی دوسرا الہامی مذہب، یہ لوگوں کو اپنے پیچھے چلانے کے لیے آیا تھا، نہ کہ اس لیے کہ وہ لوگوں کے پیچھے چلے۔

یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب انسان اپنی گردن سے اللہ کی بندگی اور غلامی کا کلادہ اتار پھینکے تو پھر اس کی بغاوت و فرار کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی کہ کہاں جا کر رُکے گا۔ وہ اس حد تک بھی گر سکتا ہے جہاں آج اہل مغرب کھڑے ہیں کہ گویا انہوں نے زندگی کے ہر ہر گوشے سے اللہ کو نکال باہر کیا ہے۔

کیا یہی وہ منزل ہے جو مغرب کی نقالی میں ہمارا لبرل طبقہ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے؟