میرے محافظ ،میرے اپنے ہیں

ایسا کیوں ہو رہا ہے،کس کی ایما اور کہنے پر کیاجا رہا ہے،ایک دم سے حزب اختلاف سے فوج مخالف صدائیں کیوں بلند ہونا شروع ہو گئیں،کیا کسی اور کے ایجنڈے پر عمل پیرائی کے لئے ان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ایسے کئی سوالات میرے جیسے محب وطن لوگوں کے اذہان میں بھی جنم لے رہے ہوں گے خاص کر میاں نواز شریف کے فوج مخالف بیانات کے بعد۔ابھی کل ہی ایک دوست کے ساتھ ملک کی موجودہ سیاسی ومعاشی صورت حال پر بحث چل رہی تھی کہ میرے مذکور سوالات سے اس نے براہ راست یہ فتویٰ داغ دیا کہ مراد صاحب آپ بھی فوجی آمروں کے حق میں بات کر رہے ہیں،میں نے جواب میں عرض کیا کہ جناب ایسا ہرگز نہیں میں کبھی بھی ون مین شو کے حق میں نہیں رہا لیکن مجھے ایک بات کا جواب اپنے ضمیر کو حاضر جان کر دیجئے گا کہ کیا افواج پاکستان ہمارے ملک کا ایک اہم ادارہ نہیں ہے،کیا ملک پر دشمن کے حملہ کے وقت وہ ہماری سرحدوں کی حفاظت پر چاک و چوبند نہیں ہوگی؟

موصوف نے جواب میں کہا کہ وہ تو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔بالکل درست،لیکن کیا ذمہ داری کا احسا س افواج کو ہی ہونا چاہئے یا ہمارے سیاستدان بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔کیا ہمارے سیاستدانوں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تہذیب وتقدس سے ماورا ہوتے ہیں۔یا  ہونا چاہئے،نہیں اگر ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور جمہوری نظام حکومت کی برتری اور ماورائی نظام حکومت قرار دیتے ہیں تو پھر انہیں بھی تو اپنے دائرہ اختیار اور دائرہ تمدن وتہذیب کا خیال رکھنا چاہئے۔نا کہ خود کو خلائی مخلوق سمجھتے ہوئے دنیاوی قانون سے مبرا قرار دیں ۔اب واپس آتے ہیں کہ ایک دم سے کچھ لوگ اپنے ہی ملک کے ادارے کے کیوں اتنے خلاف ہو گئے ہیں۔

 تو جناب کہتے ہیں کہ دوسروں کی پلیٹ میں سیب میٹھا اور پیارا دکھائی دیتا ہے،ایسے ہی جیسے “گھر کا جوگی جوگنا اور باہر دا جوگی سدھ” اسے آپ انسانی فطرت قرار نہیں دے سکتے بلکہ انسانوں کے اندر کا خوف اور احساس کمتری کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتاجس کی بنا پر ہمیں ہر وہ چیز،شخص اور ادارے پر کشش اور فعال دکھائی دیتے ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہو ں،جیسے کہ آجکل پاکستان میں افواج ِ پاکستان پر تنقید کرنا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔

ہمارا ایک دوست کہا کرتا ہے کہ جسے ماں چولہے کے پاس نہیں بٹھاتی وہ بھی افواج پاکستان کو طعن وتشنیع سنا رہا ہوتا ہے۔حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جو وطن کی خاطر اورعوام کی حفاظت کے لئے سرحدوں پر پہریدار بن کر راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون برباد کئے ہوئے ہیں ،ہم عوام کو بھی ان کی آنکھوں کا نوراور ماتھے کا جھومر بننا چاہئے تاکہ جیسے ہم ان پر فخر کرتے ہیں وہ بھی ہم پر غرور کر سکیں کیونکہ افواج اور عوام جب ایک صف میں کھڑے ہو جائیں گے تو اندرونی وبیرونی دشمن کی جراٗت نہیں ہوگی کہ ملک کی طرف میلی نظر سے دیکھ سکے۔تاریخ کے ایک عظیم شہنشاہ کا قول یاد آگیا کہ۔

فرانکیا کے مشہور شہنشاہ شارلیمین نے کہا تھا کہ ــ’’فوج نہ تو کبھی شکست کھاتی ہے اور نہ ہی کبھی ہتھیار ڈالتی ہے تب تک جب تک اسے یقین رہتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک محبت کرنے والی قوم موجود ہے‘‘اسی جذبہ ،عقیدہ اور فلسفہ کے پیچھے ہمارا یقین کامل مانندِ تب و تاب خورشیدہونا چاہئے کہ ملک پاکستان کی افواج بھی ہم میں سے ہے اور ہم عوام قانونی ،آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ ہر اس محاذ پر شمشیر بکف ہیں جہاں انہیں ہماری ضرورت درپیش ہے۔عوام اور افواج کا ایک دوسرے کے لئے جذبہ احترام آج کی بات نہیں ہے،ہر عظیم جرنیل،بادشاہ،شہنشاہ اسی فلسفہ پر عمل پیرا ہو کرکامیابی کی منزلوں کو چھوا کرتے تھے،جیسے کہ اشوک دی گریٹ جو کہ چندر گپت موریہ کاپوتا تھا جس نے موریہ سلطنت کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا اس کی سب سے مشکل اور آخری جنگ کلنگا کی لڑائی لڑی تھی،کلنگا جو کہ موجودہ اڑیسہ اور شمالی آندرا پردیس پر مشتمل علاقہ تھا ،کلنگا کا راجہ اننتھا بذات خود عسکری مشاق اور جنگی چالوںکا ماہر تھا،اشوک اور اننتھا کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں اشوک کثیر فوج کی مدد سے فتح یاب ہوا۔اشوک دور حکومت میں یہ واحد معرکہ تھا جس میں مخالفین کی طرف سے اشوک کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اور یہی لڑائی تھی جس نے اشوک کی زندگی کو یکسر بدل کر بھی رکھ دیا یعنی جب جنگ کے خاتمہ پر اشوک نے میدان کارزار کا معائنہ کیا تو ہر سو لاشوں کے انبار اور تعفن زدہ ماحول دیکھ کر ہی فیصلہ کیا کہ آج کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوگی اور ساتھ ہی اس نے اپنی دو لاکھ فوج کو بھی آزاد کردیا۔دولاکھ فوج کی مستقل چھٹی پر موقع پرست وزرا کی ایک جماعت نے اشوک کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس فوج نہیں ہوگی تو ہم دشمن کا کیسے مقابلہ کریں گے جس کے جواب میں اشوک نے اپنے تاریخی کلمات کہے کہ’’پہلے میری ریاست کی حفاظت میری دو لاکھ فوج کیا کرتی تھی اب بیس لاکھ عوام میری ریاست کی حفاظت کرے گی‘‘

عوام بھی ملک کے لئے تب ہی اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے جب اسے یقین ہو چلا ہوتا ہے کہ ہماری افواج سرحدوں پر چاق وچوبند ہے،الحمد للہ مجھے فخر ہے کہ میں اس ملک کا باسی ہوں جس کی افواج ہمہ تن،ہمہ وقت مستعد وتوانا اور ہر پہلو باہوش وباخبر ہونے کے ساتھ ساتھ کمر بستہ ہے کہ دشمن کا کوئی ابھی نندن آئے تو اس کے ساتھ وہ کرگزرے کہ پھر کبھی ادھر کا رخ بھی نہ کرے۔لیکن کبھی کبھی میں اپنوں کے رویوں سے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ایسے حضرات جو اپنے ہی ملک کی افواج کے بارے میں درشت وہتک آمیز کلمات کہہ جاتے ہیں کیا انہیں اس ملک میں رہنے کا کوئی حق حاصل ہونا چاہئے،ہمیں اپنی فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانا چاہئے چہ جائیکہ ہم اپنوں کو دشمنوں کی صفوںمیں صف آرا ہوتے دیکھیں۔اگر ہم سب ایک ہی پیج ہوکر باہم دست وبازو بن جائیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا،انشا اللہ۔

خاص کر موجودہ خطہ کی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایران امریکہ کشیدگی کے بعد میڈیا پر ایک محاذ کھل چکا ہے کہ ہماری فوج کو کیا اقدامات کرنا چاہئے،ہمیں کس کا ساتھ اور کیوں دینا چاہئے؟ہماری افواج کا حالیہ کشیدگی میں اپنا کردار کس طرح سے ادا کرنا چاہئے ،چونکہ ہماری افواج بہت پیشہ ور ہے اسلئے ہائی کمان بہتر سمجھتی ہے کہ انہیں کس طرح سے اپنا کردار ادا کرنا ہے،ہمیں صرف اپنی افواج کی پشت پر کھڑے ہونے کی یقین دہانی کرانی ہے۔اس لئے کہ اگر چہاراطراف دشمن پیدا کر لئے جائیں تو قوموں کی بقا مشکل ہو جاتی ہے۔لہذا ہمیں اپنی بقا،حب الوطنی،اور پاکستان کی خاطر سیاست چمکانے کی بجائے باہم متحد ہوکردنیا کو دکھائیں کہ ہمارے سیاسی نظریات میں بھلے اختلافات ہیں لیکن ملکی وقار اور بقا کے لئے ہم ایک ہیں،کیونکہ اگر افواج پاکستان ہماری محافظ ہے تو ہم بھی ان کے محافظ ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔