مس 96.7 ڈگری ہے۔

ڈرائیور نے ابھی پوری طرح بریک بھی نہیں لگائی تھی کہ وہ تیزی سے دروازہ کھول کر تقریبا چلتی ہوئی گاڑی سے کودنے کے بعد اسکول کی طرف بھاگی،موبائل فون سے ٹائم دیکھا اسکول لگنے میں پانچ منٹ باقی تھے، تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے سکول گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں اس نے سکھ کا سانس لیا کہ بروقت پہنچ گئی،

“دائرہ دائرہ دائرہ۔۔ “کی چیختی ہوئی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی جو سٹپٹا کر سامنے دیکھا تو ٹیچر مریم انہیں ہاتھ کے اشارے سے دائرہ کے اندر کھڑا ہونے کا کہہ رہی تھیں،،،

“اوہ اچھا۔۔ وہ چھلانگ لگا کر دائرے کے اندر کھڑی ہوگئی۔۔آگے چار پانچ دائروں میں بچے کھڑے تھے اور اپنا ٹمپریچر چیک کروا رہے تھے۔دائرے میں کھڑے کھڑے اس کا اونگھنے کو دل کیا کیونکہ یہی سکون کے چند لمحے اس کو ریسٹ کرنے کو ملے تھے،اس کا جی چاہا کہ ٹمپریچر چیکنگ اور سینیٹائزیشن کا عمل طویل ہوجائے یا وہ پچھلے کسی دائرے میں جا کر کھڑی ہو جائے،مگر اس کے ایسا سوچنے کے دوران ان اس کی باری آگئی،ٹیچر مریم نے ٹمپریچر چیک کیا۔

“مس 96.7 ڈگری ہے۔ “

اگلے دائرے میں ٹیچر اسماء نے مسکراتے ہوئے سینیٹائزر کی بوتل سے اس کے ہاتھوں پر سپرے کیا۔

اس نے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر ملتے ہوئے جوابی مسکراتا ہوا سلام کیا اور اسٹاف روم کی طرف دوڑ گئی,وہاں کھڑے ہو کر گفتگو کرنا خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ انار کے پودے کے پاس کھڑی میم کی نگاہیں اس کو گھور رہی تھیں۔

اسٹاف روم میں پہنچ کر گاؤن تبدیل کرکے دوپٹہ لیا ہی تھا کہ سامنے ٹیبل پر اپنی نامکمل فائل نظر آئی اور ساتھ ہی میم کی کل والی جھاڑ کا کڑوا ذائقہ گلے میں محسوس ہوا۔

“پورا ہفتہ گزر گیا ابھی تک آپ سے بچوں کے فون نمبر اور گھر کے ایڈریس کی لسٹ مکمل نہیں ہوئی،اب آپ کے پاس صرف آج کا دن ہے،کل صبح یہ لسٹ مکمل ہو کر میری ٹیبل پر پڑی ہونی چاہیے”

اس نے میم کے الفاظ یاد کر کے ایک جھرجھری لی اور فائل کھول کر بیٹھ گئی،پہلے پیریڈ میں کلاس کے بچوں سے ایڈریس اور فون نمبر مانگا،جوابا بچوں نے کورے چہروں کیساتھ مس کی طرف دیکھا جیسے ان کی بات نہ سمجھے ہوں۔

“میں نے کہا اپنے اپنے ایڈریسز اور فون نمبرزلکھوادیں۔” اس نے ذرا گھور کر بچوں کی طرف دیکھا

“مس آپ نے ہمیں ایڈریسز اور فون نمبرز لے کر آنے کا نہیں کہا

“،ہم گروپ اے ہیں، آپ نے گروپ بی سے کہا ہوگا مانیٹر نے اٹھ کر کہا۔

“اوہ۔۔۔۔۔وہ تو واقعی میں نے گروپ بی سے کہا تھا۔” اس نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا

بچوں کو اپنے اپنے ایڈریسز اور فون نمبرز لے کر آنے کی تاکید کی، سبق پڑھایا اور اگلے پیریڈ کی بیل لگ گئی۔

دوسرے پیریڈ میں کلاس نہم کے وائٹ بورڈ پر موٹے حروف میں ٹیسٹ لکھا ہی تھا کہ پیچھے سے بچوں کی آواز آئی “مس آج ٹیسٹ نہیں ہے”

“ارے کیوں نہیں ہے. کل ہی تو میں نے آپ کو انگلش کی تین سمریز ٹیسٹ کے لئے دی تھیں۔” اس کے ماتھے پر غصیلی لکیریں ابھریں۔

“مس ہم گروپ بی ہیں آپ نے گروپ اے کو سمریز ٹیسٹ کے لیے دی تھیں” کلاس میں سے ملی جلی آوازیں آئیں۔

“جھوٹ کہہ رہے ہیں آپ لوگ.. ٹیسٹ سے بچنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں..” اس نے ڈانٹتے ہوئے کہا

نو مس یہ ٹیسٹ آپ ہم سے پرسوں لے چکی ہیں،مانیٹر نے اپنی کاپی دکھاتے ہوئے کہا

“کا پی پر اسی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے8/10 نمبر اس کا منہ چڑا رہے تھے”

اس نے کتاب کھولی اور اگلا سبق پڑھانا شروع کر دیا

جیسے تیسے کر کے بریک تک کے پیریڈز گزر گئے۔

بریک کے دوران سیب کی ایک قاش کاٹ کر منہ میں ڈالی ہی تھی کہ بلاوا آگیا

“مس آپ کو میم صاحبہ نے بلایا ہے.”ملازم نے آ کر پیغام دیا.

“آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں, قاش منہ اور گلے کے دوران ہی کہیں اٹک گئی ، کرسی پیچھے کر کے فورا کھڑی ہوئی اور آفس کی طرف بھاگ گئی۔

مس یہ خاتون آپ سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں، ایک منٹ کے لئے ان کی بات سن لیجئے ” میم نے خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

” السلام علیکم !جی کہئیے۔۔”اس نے خاتون کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا

“مس جی آپ نے میرے گاؤں کے تمام بچوں کو گروپ اے میں رکھا ہے اور میری بیٹی کو گروپ بی میں رکھا ہے،باجی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں کے بچے اس سکول میں گروپ کی شکل میں چل کر آتے ہیں۔بچے اکٹھے آ جاتے ہیں تو ہمیں بھی اتنی فکر نہیں رہتی۔اب میری بیٹی اکیلی رہ گئی ہے اسے آنے جانے میں مسئلہ ہو گا آپ اس کو بھی گروپ اے میں شامل کرلیں۔” خاتون نے التجا کرتے ہوئے اپنا مسئلہ بتایا

” ہمیں تمام بچوں کو جفت اور طاق کی ترتیب سے گروپ بندی کرنے کا کہا گیا ہے،ہم محکمے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے”اس نے خاتون کو سمجھانے کی کوشش کی

مگر وہ منتوں اور ترلوں پر اتر آئی،”دیکھیں ناں باجی اس کے ابو تو صبح صبح کام پر چلے جاتے ہیں میں گھر میں اکیلی ہوتی ہوں،ساس بھی بیمار ہے، سارے کام کرنے ہوتے ہیں اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اسے روزانہ چھوڑنے اور لینے آؤں اس لیے آپ مہربانی کریں اور اسے گروپ اے میں شامل کر لیں۔

“اس نے کنکھیوں سے میم کی طرف دیکھا”

میم نے اس بچی کو گروپ اے میں شامل کرنے کی ہامی بھر لی۔

“ٹھیک ہے آپ کی بچی کا مسئلہ ہے اس لیے ہم اس گروپ اے میں شامل کر لیتے ہیں۔” میم نے کہا اور وہ اوکے کر کے اسٹاف روم میں واپس آ گئی

بریک کے بعد کے دو پریڈز میں بھی گروپ اے اور گروپ بی کی کشمکش جاری رہی۔۔

ساتویں پیریڈ میں ملازم نے آکر آفس میں اطلاع کی کہ میڈم صاحبہ باہر ثانیہ اکرام کے والد صاحب آئے ہیں اس کی چھٹی مانگ رہے ہیں۔

“مگر کیوں ؟؟ ” میم نے خفگی کے ساتھ کہا

“باجی وہ کہہ رہے ہیں کہ میں گھر واپس جا رہا تھا اسکول کے پاس سے گزرا تو سوچا بیٹی کو ساتھ لیتا جاؤں “۔ ملازم نے وضاحت کی

“کوئی چھٹی نہیں وہ چھٹی کے بعد خود ہی گھر آ جائے گی آپ ان کو بتائیں کہ اس کا ریاضی کا پیریڈ چل رہا ہے “

“جی اچھا ٹھیک ہے باجی”

مگر چند منٹوں کے بعد ملازم دوبارہ واپس آگیا۔

باجی وہ کہہ رہا ہے کہ مہربانی کریں چھٹی دے دیں، میں نے شہر لے کر جانا ہے اس کے شوز بھی لینے ہیں۔

“ایک تو والدین کو بچوں کا ٹائم ضائع کرنے میں ذرا احساس نہیں ہوتا. چلو ٹھیک ہے بلا لاؤ اس کو کلاس روم سے۔” میم نے قدرے خفگی کے ساتھ کہا کلاس ہشتم کی کی کھڑکی میں سے اس نے ملازم کو اس طرف آتے دیکھ لیا تھا

 “یا اللہ خیر! ۔۔۔۔،”اس نے سوچا اور دروازے کے سامنے آگئی

“باجی ثانیہ اکرام کی چھٹی آئی ہے اس کو بھیج دیں” ملازم نے آکر اطلاع کی

“ان لوگوں کا ٹیسٹ چل رہا ہے چھٹی کیسے دے دوں ، تھوڑا انتظار کریں،ٹیسٹ مکمل ہونے کے بعد ہی چھٹی دونگی۔

“باجی میڈم صاحبہ نے بھی اس کے والد کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ اسے بازار لے کر جانا چاہتے ہیں آپ اس کو چھٹی دے دیں۔ملازم نے التجا کی۔ شاید وہ بھی بار بار پیغام لے کر آنے جانے سے تنگ آ چکا تھا۔

” اچھا ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں؛کہہ کر اس نے کلاس روم میں کھڑے ہوکر ثانیہ کرام کو پکارا اور ساتھ ہی باتیں سنانا شروع کر دیں۔

“آپ لوگ گھر میں والدین کو چھٹی لینے آنے سے منع کیا کریں ، کیا یہ شاپنگ چھٹی والے دن نہیں ہو سکتی تھی اس نے خفگی کے ساتھ پوری کلاس کو گھورا “

“مم مم مگر مس ثانیہ تو آج نہیں ہے اس کا گروپ بی ہے وہ کل آئے گی” مانیٹر نے ڈرتے ڈرتے اطلاع کی

” اوہ میرے اللہ۔۔۔ ” اس نے کہا اور ملازم کو بتایا کہ ثانیہ کا تو آج گروپ ہی نہیں ہے۔

ملازم نے جاکر باپ کو بتایا ،وہ شرمسار ہوا اس نے کہا کہ میں صبح کام پر چلا جاتا ہوں مجھے پتا نہیں تھا کہ آج بچی گھر پر ہی ہے۔

اللہ اللہ کر کے یہ دن گذر گیا، واپس گھر پہنچ گئی، بچے سکول سے واپس آ چکے تھے،معمول کے سارے کام ختم کیے اور ذرا کمر سیدھی کرنے کو لیٹ گی،کچھ دیر بعد اٹھی، باقی کے کام مکمل کیے بچوں کو ہوم ورک کے لئے بٹھا لیا

فہد ۔۔! بیگ لے کر آؤ

“اوں ۔۔۔ ماما کل چھٹی ہے،میں گروپ اے میں ہوں ۔ میں کل دن کے وقت پڑھ لوں گا۔ابھی کچھ دیر کھیلنے چلا جاؤں اس نے التجا کی

اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ ! سعد تم بیگ لے کر آ جاؤ فورا۔۔ اس نے آرڈر جاری کیا

“ماما مجھے آج چھٹی تھی میں گروپ بی میں ہوں۔ میں نے آج سبق تیار کر لیا ہے.”

“کیا گارنٹی ہے کہ تم نے سبق یاد کیے ہیں ادھر لے کر آؤ بیگ میں سنتی ہوں “

“اوہ ہو ۔۔ ماما قسم سے سارا ہوم ورک کر لیا ہے ،آپ میرا بیگ چیک کر لیں۔اس نے کاپیاں کھول کر ماما کو دکھانی شروع کر دیں۔

صرف ہوم ورک کر لینا کافی نہیں سبق بھی یاد کرنے ہیں۔اس نے بچے کو سبق یاد کروائے سنے اور اور دیگر کام مکمل کیے۔

صبح کی تیاری کی،ٹفن تیار کئے یونیفارم استری کیے شوز پالش کیے،نماز عشاء ادا کی اور سو گئی۔

فجر کی اذان کے ساتھ ہی بیداری ہوئی، نماز ادا کی بچوں کو اٹھایا، تیار ہونے کا کہہ کر ناشتہ بنانے چلی گئی۔۔۔ابھی دوسری روٹی توے پر ڈالی ہی تھی کہ سعد کی لاؤ نج سے آواز آئی

“ماما “

“جی ” اس نے کچن سے ہی جوابی آواز لگائی

میرا یونیفارم کہاں ہے ،اس نے دوبارہ آواز لگا کر پوچھا

استری کر کے رکھا ہے کرسی پر آنکھیں کھول کر دیکھو

“نہیں ہے” سعد نے کہا

” کیوں نہیں ہے۔ میں نے رات کو استری کیا تھا

“ماما وہ وہ فہد کا یونیفارم ہے,اور فہد کو تو آج چھٹی ہے وہ گروپ اے میں ہے آج میں نے اسکول جانا ہے میں گروپ بی میں ہوں۔۔” سعد نے وضاحت کی

“اوہ میرے اللہ۔۔” بیلن اس کے ہاتھ میں تھا اور اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنے سر پر مار لے۔۔