امیر معذرت قبول کیجیے

میں اپنے حواسوں کو مجتمع کرنے میں ناکام ہوں۔

الفاظ تو ہوتے ہی اہم ہیں، مگر اس وقت یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آنسو اہم ہوتے ہیں یا الفاظ؟

شرمندگی کے آنسو پیہم بہے چلے جاتے ہیں۔

ہم نے کیا کیا؟

ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے۔

چھوٹی چھوٹی تکالیف ہماری حوصلہ شکنی کرتی رہی ہیں۔

ہم جو خود کو بہت اونچی چیز سمجھتے ہیں۔

بات بات پر صلہ مانگتے ہیں۔

دیتے کچھ نہیں ہیں۔

ہم تو اپنی زبان ڈھنگ سے نہیں بول سکتے۔

ہم تو گھریلو معاملات نہیں سلجھا سکتے۔

ہم تو اندرونی مسائل کو ہی تفصیل سے نہیں جانتے۔

ہم اپنی ذات کے بھنور میں گم لوگ۔

آج جس شخص کو رو رہے ہیں۔

کیا اسے رونے کا حق رکھتے ہیں؟

وہ جو خدمت کا پیکر تھا۔

ہم میں نہیں رہا۔

تو کیا ہم میں اس کا کوئ گن آیا۔

جس کو اتنی ساری زبانوں پر عبور حاصل کہ ہم اس کے سامنے گونگے کہلائیں،مگر عاجزی کا منبع،خیر کا منبع وہ شخص۔

اور ہم ذرا ذرا سی خاصیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے۔

خود کو بڑا سمجھنے والے۔

کیسے اس مقام پر پہنچیں گے کہ جب بین الاقوامی امور خارجہ طے کر سکیں؟

نہیں نہیں ہم کہاں وہ کہاں؟

یہ کام اکڑفوں ،بلند بانگ دعوے کرنے والے لوگ نہیں کر سکتے۔

یہ کام تو ایسے ہی لوگ کر سکتے ہیں جو تسلیم و رضا کے پیکر ہوں۔

جو میدان جہاد میں چنے گئے ہوں۔

فرد تو وسیلہ ہوتا ہے ورنہ ایسے بندے تو خدا کے برگزیدہ ہیں۔

جو ثمردار ہیں،جن کے پھل رہتی دنیا تک لوگ کھایا کریں گے۔

ہم بے ثمر کہاں اس لائق؟

وہ جن کی بات لکھتے ہوئے انگلیاں جل اٹھی ہیں۔

وہ جن کا نام پکارتے ہوئے دہن کانپ اٹھا۔

وہ جن کو روتے ہوئے آنسو بھی پشیمان ہیں۔

کہ ہم حقیر سا ذرہ ہیں ،وہ کوہ کوہسار ہیں۔

ہم بوند ہیں وہ سمندر ہیں،ایسا ساکت سمندر جس کے اندر بہت سے خیر کے طوفان موجزن ہیں،دنیا کو بدلنے کی لگن،دنیا کو کچھ دے جانے کی لگن۔

ہمارے اندر کیا ہے؟بس پانے کی اور سب اکیلے کھا جانے کی لگن؟

وہ جو بولیں تو لفظ فولاد کی طرح دشمن کے سینے پر جا لگیں۔

وہ جو بولیں تو اپنوں کے قلب پر شبنم گرنے لگے۔

وہ جو بولیں تو محاذ بدل دیں۔

وہ جو بولیں تو رائے عامہ ہموار کردیں۔

وہ جو بولیں تو پھول جھڑتے ہیں۔

وہ جو بولیں تو لفظ ہنستے ہیں۔

وہ جو بولیں تو فیصلے طے پاتے ہیں۔

وہ خاموش ہوجائیں تو وقت کی رفتار تھم جاتی ہے،فیصلے اٹک جاتے ہیں۔

وہ جن کی آنکھوں نے امید کے چراغ جلائے۔

بے بس مجبور اور کمزور کی امید بن کر آنے والی حسین دنیا کا نقشہ دکھایا۔انشاء اللہ

الفاظ موتیوں کی طرح تسبیح میں پروتے ہوئے جو رب کے حضور ایسے جا ملیں کہ کشاں کشاں،سبک سبک قدموں سے، مطمئن،نہ خوف،نہ رنج نہ آزردگی۔

سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا سب ہی آپ کی عظمت کے گن گا رہے ہیں۔

آپ کے متعلق اپنی یادداشتیں سناتے ہوئے لوگ جیسے گواہی دے رہے ہوں کہ آپ جنت کے مکیں ہیں۔

فرشتے آپ کا استقبال کریں گے۔

اب آپ حسین جنتوں کے وارثین میں شامل ہوجائیں گے۔

آپ کے نام کا پہلا حصہ بندگی ہے،آپ کے نام کا دوسرا حصہ بڑا بخشنے والا ہے،آپ بخشنے والے کے بندے بن کر بخشش کی صفات اپنے اندر سموتے گئے اور ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اور رب کریم کے اتنے عزیز ٹھہرے کہ ساری دنیا کو عزیز ہوگئے۔

کہیں حسن ظن کی تاکید کر رہے ہیں تو الفاظ کا بہاؤ آپ کے باعمل ہونے کا گواہ بن جاتا ہے۔

کہیں کراچی والوں کو ان کی اہلیت کا احساس دلا کر آنے والی خوشخبری دے رہے ہیں۔

آپ نے دم آخر الحمد للہ کہا۔

تکلیف کا اظہار نہ کیا۔

آپ امیر کا ہاتھ سینے پر اس محبت اور وارفتگی سے رکھے نظر آئے کہ دل نے بے اختیار کہا کہ آپ اطاعت امیر کا نمونہ ہیں۔

ہم آپ کی شفقت سے محروم ہوگئے ہیں تو دل بھی روتا ہے،آنکھ بھی روتی ہے۔

دل بھی ندامت کرتا ہے،آنکھ بھی شرمندہ ہوتی ہے کہ نہ ہم وہ محسوس کر سکے جو آپ نے کیا،نہ وہ دیکھ اکے جو آپ نے دیکھا۔

اسی لیے ہمارے اعضاء و جوارح عامل بھی نہ بن سکے۔

ہم بہت شرمندہ ہیں۔

آپ نے انسان پڑھ کر انسان بنائے۔

ہم نے آدمی گن کر کام کرائے۔

اسلامی تحریکیں گواہی دے رہی ہیں۔

اسلامی ممالک گواہی دے رہیں۔

دنیا سے نہ جانے کون کون تعزیت کر رہا ہے اور یہ بتا رہا ہے کہ آپ نے انسان پڑھ کر انسان بنائے ہیں۔آپ نے دلوں کی کتابیں پڑھیں اور دانا بن گئے۔

ہم نے ظاہر کو پرکھا اور نادان ٹھہرے۔

وہ جو شاہنواز فاروقی صاحب نے بھی کہا کہ!

 

کتاب دل اگر پڑھتا نہیں ہے

تو پھر سقراط بھی دانا نہیں ہے

 

ہمیں معاف کیجیے گا امیر ہم آپ کے نقش پا کے پیرو کبھی نہیں بن سکیں گے۔

آپ سے درخواست ہے کہ جب آقائے دوجہاں صہ سے ملیں تو ہماری معذرت ابھی سے جمع کرادیجیے گا،دنیا قبول نہ بھی کرے ،مگر وہ تو محبت کے پیکر ہیں ۔امتی امتی کی صدا لگانے والے ہیں،کر لیں گے ۔اور پھر قاصد بھی آپ جیسا ہو تو کیوں نہ کریں گے؟

آپ کو دیدار یار نصیب ہو تو ہم جیسے دنیا داروں کا پیغام دیجیے گا کہ ہم بہت کمزور،مجبور،بے بس ہیں مگر ہیں تو آپ کے،تو فراق یار میں ہم بھی تڑپا کیے ہیں۔

مگر پہلے آپ تو معذرت قبول کرکے جائیے۔ہمارے آنسووں کے واسطے۔

ہمارے ندامت سے بھرے دل کے واسطے۔

ارے ایک بار پھر معذرت! یہ واسطے آپ جیسے خوبصورت اور نرم دل رکھنے والوں کو کہاں دیے جاتے ہیں؟

امیر ایک بار پھر معذرت۔