نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر

اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی  کی بات ہو تو ان کو اظہار رائے کی آزادی یاد آتی ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی نہیں صرف اسلام پر زبانیں دراز کرنے کے بہانے ہیں۔ہر کچھ دن بعد جان بوجھ کر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی دانستہ کوئی ایسی حرکت  کی جاتی ہے۔ پھر کوئی سر پھرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار اٹھتا ہے اور گندی زبانوں کو خاموش کرا دیتا ہے بدلے میں اپنی جان سے بھی( بظاہر) جاتا ہے۔  پھر  یہی آزادی اظہار کا شور مچانے والا میڈیا اور اسلام دشمن بین ڈالنے لگتے ہیں۔ اسلام کو دہشت گردی اور مسلمان کو قدامت پسند کے لیبل  لگاتے ہیں۔اپنی اداؤں پر غورنہیں کرتے ۔

کچھ روز قبل فرانس کے صدر نے انتہائی متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف فرانس بلکہ پوری دنیا میں اسلام بحران کا شکار ہے۔ اور ساتھ ہی مختلف تعلیمی اداروں میں اسلام کی تنظیم نو کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ اور اس بات پر بھی زور دیا کہ مذہب کو تعلیمی نصاب سے نکال دینا ہی بہتر ہے۔ اگرچہ فرانس ایک سیکولر ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے اور ہر مذہب کو آزادی دیتا ہے مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام کے خلاف فرانس میں  قانون سازی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔  چاہے مسئلہ حجاب پر پابندی کا ہو یا توہین آمیز خاکوں کا ہو۔ابھی  بھی اسلام کے خلاف بل پاس کرنے پر کام جاری ہے۔ اسلام فرانس میں دوسرا بڑا مذہب ہے اور یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس ہی میں آباد  ہیں جو کہ پانچ ملین ہیں۔   ایک طرف جو اسلام کو بحران میں دیکھ رہا تھا تو وہیں مالی سے آزاد قیدی خاتون کے استقبال کو بھی گیا مگر اس نے تو آتے ہی پریس کو بتایا کہ میں اب مسلمان ہوں اور واپس مالی جانا چاہوں گی اور وہیں انسانیت کی خدمت کروں گی۔

“ایک چال وہ چل رہے ہیں ایک تدبیر اللہ کر رہا ہے بےشک اللہ سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔”

 

حالیہ واقعہ بھی ان ہی واقعات کا تسلسل ہے۔ ایک تاریخ کے  استاد نے کلاس میں آزادی اظہار رائے کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے دکھائے جس پر والدین نے احتجاج بھی کیا۔ اسی دوران ایک شخص نے اپنی بیٹی کی کلاس میں دکھائی جانے والی انتہائی گستاخانہ تصاویر دکھانے کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کی۔ والدین کے احتجاج پر جب کان نا دھرا گیا اور دس دن گزر گئے تو اٹھارہ سالہ چچن نوجوان نے چھری کے وار کر کے اس بد بخت کو ہلاک کر دیا۔اس چچن نوجوان کو پولیس نے فائرنگ کر کے موقعے پر ہی شہید کر دیا۔ اس کے والدین بہن بھائی دادا اور قریبی دوستوں سمیت دس افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ صدر مکرون نے کچھ گھنٹے کے اندر اندر اس سکول کا دورہ کیا اور پھر سے اسلام پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگاتے ہوئے کہا کہ اس استاد کو اس لئے قتل کیا گیا کہ یہ بچوں کو تعلیم دے رہا تھا اس کا قصور بس تعلیم دینا اور اظہار رائے کی آزادی کا مظاہرہ تھا۔ گویا کہ تعلیم کی آڑ میں جو کچھ کریں اس کی اجازت ہے ۔۔اس نوجوان کا تعلق فورا کسی جہادی تنظیم سے جوڑ دیا گیا۔  یہ واقعہ یونہی اچانک نہیں ہوا 2011-2012 میں چارلی ہبڈو میگزین نے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے۔ اس سے قبل یہی خاکے 2005 میں ڈنمارک کے ایک اخبار نے شائع کئے تھے، جس سے ساری دنیا میں ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا اور شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ یہی خاکے بعد میں فرانس کے چارلی ہبڈو نے شائع کئے جس پر بہت احتجاج ہوا اور  ایک پاکستانی نوجوان نے اخبار کے دفتر میں داخل ہو کر ٹوکے سے حملہ کیا تھا دو افرد کو زخمی کیا تھا۔ 2015 میں ایک بار پھر شائع کرنے پر  کچھ مزید افراد نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا تھا۔ اور کئی افراد کو ہلاک اور زخمی کیا تھا۔ اسی کی یاد میں ہر سال ریلی نکالی جاتی ہے۔اخبار نے پانچ سال بعد یکم ستمبر کو  دوبارہ  ان گستاخانہ خاکوں کو شائع کیا ۔ اخبار سے متعلقہ افراد نے  کہا کہ ہم تو بزدل نہیں بنیں گے اظہار رائے کی آزادی ہمارا حق ہے جو ہم کرتے رہیں گے۔  یاد رہے یہ خاکے اس وقت شائع کیے  جب ایک اہم قانونی ٹرائل شروع ہونا تھا۔جو 13 مردوں اور ایک خاتون کے خلاف ہے ، جن پر 2015 میں ہونے والے حملے میں مدد کرنے کا الزام ہے۔ یہ ٹرائل مارچ میں ہونا تھا مگر covid-19  کی وجہ سے اب شروع کیا گیا اور شنید ہے کہ نومبر تک چلے گا۔  یہ استاد جس کا نام پیٹی بتا جارہا ہے ہر سال چارلی ہبڈو سے یکجہتی کے طور پر یہ خاکے دکھاتا تھا۔ سکول کے سامنے ہی اسے قتل کیا گیا ہے۔۔

بحیثیت مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی ہے :

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘

 

یہ تو وہ جذبہ ہے کہ جس پر عمر رضی اللہ تعالی  کے ایمان کو بھی چانچا تو وہ بھی پکار اٹھے” رب ذوالجلال کی قسم! اب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اور مرتے دم تک کبھی کم نہیں ہو گی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی  کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘

مولانا ظفر علی خان نے اسی جذبے کو چار مصرعوں  میں سمو دیا:

زکوٰۃ اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور نماز اچھی

مگر مَیں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا

نہ جبتک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا