علم سے اخلاق سے اور ہمت سے اپنی منزل حاصل کریں

ملک کا غدّار ہے امریکہ کا جو یار ہے، ہائے ہائے امریکہ، بائے بائے امریکہ.  اور اس جیسے کتنے ہی نعرے سن کر میں جوان ہوا۔ افغانستان جنگ کے بعد تو گویا آگ ہی لگ گئی، امریکہ کی ہر چیز سے دشمنی، نام سے، جھنڈے سے، اعمال سے، تقریروں سے۔ اگر بس چلے توشاید حروفِ تحجّی سے وہ حروف ہی نکال دیں جن سے امریکہ بنتا ہو۔ ملک عزیز میں ہونے والی ہر بری چیز کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کی سازش ۔ حبُّ الوطنی کا ثبوت پیش کرنا ہو تو امریکہ اور امریکیوں کو گالی دے دیں، گویا آسمان سے گواہی آ گئی کہ آپ اور آپ کی لال ٹوپی حبُّ الوطنی کی واحد ضامن ہیں۔

 

ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، ریمنڈ ڈیوِس اور تابوت میں آخری کیل ملالہ یوسف زئی، امریکہ کا نام لینا بھی گالی بن گیا اور کسی نے اگر امریکہ وزٹ بھی کر لیا تو گویا شرابی، زانی اور ملحد و کافر تو ہوا ہی، ساتھ میں سی آئی اے کا ایجنٹ بھی ہو گیا۔ اب آسمان سے وحی آئے تو خلاصی ہو ورنہ جس نے جہاں جو کہہ دیا وہ مرتے دم تک آپ کے نصیب پر کالک ملتا رہے گا۔

 

’’اِخلاق باختگی اور فحاشی کے گہوارے‘‘ میں جب میں پڑھنے آیا تو بلا مبالغہ سینکڑوں ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں جن کے بارے میں ہمارے ملک میں جھوٹ کہا جاتا ہے، اخلاق اور ان کو قانونی شکل دے دینا، انسانیّت اور عزّتِ نفس کی رکھوالی صرف انہی دو کی مثال لے لیں تو امریکہ دنیا بھر میں ممتاز ٹھہرے۔ میں اس بات سے بحث نہیں کر رہا کہ کون صحیح ، کون غلط۔ کس نے کب کب کیا کیا؟ اور کس نے پیٹھ میں چُھرا گھونپا۔

 

میں تو صرف اپنے گریبان میں جھانکنے کا کہتا ہوں۔ دنیا میں دو اصول ہمیشہ سے کاربند دیکھے ’’منزل علم و ہمّت کی محتاج ہے‘‘ اور ’’ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ ۔

 

آج امریکہ بلاِ شرکت غیرے سائنس اور فنونِ لطیفہ میں سرِ فہرست ہے۔ یہاں کی یونیورسٹیاں دنیا بھر کے اہلِ علم کی پیاس بجھاتی ہیں۔ یہاں کے سائنسدانوں کی ایجادات پوری دنیا کو نفع دیتی ہیں۔ خواہ وہ کوئی نئی ویسکسین ہو یا خلائی سیّارہ ، زراعت ہو یا ڈی این اے کا نقشہ اور انگریزی زبان علم و ثقافت میں اوّل نمبر پر آتی ہے۔ تو آخر ایسا کیوں کر ممکن ہو کہ ہم امریکہ اور انگریزی کا بائیکاٹ کر دیں اور دنیا میں آگے بڑھ سکیں؟

 

تنقید کا حق ضرور رکھیئے ، برائیوں پر بات بھی کریں مگر جو اچھائیاں ہیں ، جو تعریف کا حق ہے ، جو شکر و احسان کی سنَد ہے اُسے بھی تو قبول کریں۔ مگر ہمیں تاریخ کے دسترخوان پہ حرا م خوری سے فرصت ملے تو عملی اورعلمی دنیا میں کچھ کریں نا

 

بھائی، دنیا اسباب سے چلتی ہے، حضرت مریم ؑ کو کجھوروں کے لئے درخت ہلانا پڑا تھا، حضرت مسیح ؑ دمشق میں مسجد کے بارہ فٹ اونچے مینار سے سیڑھی کے ذریعے نیچے اتریں گے اور اگر کل سائبروار چھڑ گئی تو اذانیں دینے سے انٹرنیٹ پروٹوکول تبدیل نہیں ہوجائیں گے۔ آج دنیا کے نوجوانوں کا دھارا جو امریکہ کی طرف بہہ رہا ہے ایسا تو خود ہماری اپنی تاریخ سے ثابت ہے۔

 

عربی کم و بیش کوئی سات سو سالوں تک دنیا میں علم کی علمبردار رہی، آٹھویں صدی عیسوی سے تیرھویں صدی عیسوی تک، مسلمانوں کا علوم و فنون میں طوطی بولتا تھا۔ عبّاسی خلیفہ ہارون الرّشید کے دور میں بغداد میں ’’ہاؤس آف وزڈم‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا ٹرانسلیشن کا ادارہ بنا جہاں ہزاروں لوگ دنیا بھر کی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرتے تھے، فیز ،موروکو میں قائم جامعتہ القروین 859 عیسوی میں قائم ہونے والی دنیا کی پہلی باضابطہ یونیورسٹی ہے۔ (یونیسکو، گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ). ابنِ خُلدون یہیں کے تو پڑھے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے بھی تیونس میں زیتونہ مسجد کے نام سے 703عیسوی میں مدارس کی بنیاد پڑ چکی تھی۔

 

اُس دور میں جو مقام عربی کو حاصل تھا وہ آج انگریزی کو ہے۔ اُس دور میں جو مقام بغداد، بخارا، قسطنطنیہ اور اُندلس کو حاصل تھا وہ آج سان فرانسِسکو، نیویارک، لندن اور پیرس کو حاصل ہے۔

 

دنیا نے تو عربی اور بغداد کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا، نہ ہی بغدادی سازشوں پر کوئی ڈرامے اورناوِلز لکھے گئے اور نہ ہی عربی پڑھنا عیسائیت اور یہودییت کی تباہی قرار پایا۔ تو آج اگر وقت کا پہیہ الٹ گیا ہے تو سمجھداری یہی ہے کہ علم و ہمّت کو اپنی کھوئی ہوئی میراث سمجھیں اور محنت کریں اور جذبات سے بلند ہوکر سوچیں۔

 

دوسرا اصول لاٹھی اور بھینس۔ آج اگرامریکہ آکے، ریمنڈ ڈیوس کو چھڑاکر لے گیا تو یہ بھی دنیا کے قوانین کے عین مطابق ہے۔ جو حکمران ہوتا ہے اسی کا کہا قانون کہلاتا ہے۔ چلیں میں دور کی بات نہیں کرتا۔

1695

کا زمانہ ہے اور اورنگزیب عالمگیر کی حکومت ہے۔ انڈیا سے گنجِ سوائی نام کا ایک بحری بیڑہ حج کے لیئے روانہ ہوتا ہے۔ باب المندب کے مقام پر ، سورت سے کچھ دور اُسے فینسی نامی بحری قذّاق اوراُس کے ساتھیوں نے لوٹ لیا اور اُس کے کمانڈر فتح محمّد کو یرغمال بنا لیا۔ اورنگزیب عالمگیر کا عتّاب برِٹش ایمپائر پر نازل ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے آفیسز جلا دئیے گئے، برطانوی شہریوں کو زُد وکوب کیا گیا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہیڈ سرجون گیئر کو معافی نامہ پیش کرنا پڑا اور اورنگزیب کے وزیروں سدی یعقوب، نواب داؤد خان اور اسد خان کے سامنے تاجِ برطانیہ کو ناک رگڑنی پڑی اور فی مسافر اس دور میں (کوئی سوا چار سو سال پہلے) ایک ہزار پاؤنڈ کا جرمانہ بھی بھرنا پڑا۔ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا مین ہنٹ بھی شروع ہوا ان قزاقوں کو پکڑنے کے لئے۔

 

تو حضورِ والا، جب آپ کی لاٹھی تھی تو آپ کی چلتی تھی۔ اب لاٹھی ہاتھ میں نہیں ہے تو بھینس کا ماتم کیوں کرتے ہو؟    آئیے، آپ اور میں مل کر عہد کرتے ہیں کہ پڑھیں گے، اخلاق سیکھیں گے اور اپنے ملک کو امریکہ سے بھی اعلیٰ بنا دیں گے۔

 

اوراگر ہمیشہ کی طرح اختلاف ہی کرنا ہے اور گالیوں سے ہی نوازنا ہے تو میں نے ایک عدد ای میل صرف گالیوں کے لئے ہی مختص کر دیا ہے۔ نوٹ فرما لیں    insultreceiver@gmail.com    جسے میں ہفتے میں ایک بار ضرور دیکھتا ہوں۔

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں