جنرل صاحب ! خدا کے لیے

کوسٹل ہائی وے مکران میں ہمارے فوجیوں پر حملہ ہوا ، کیپٹن سمیت سپاہیوں نے شہادت پائی ، یہ بیچارے سپاہی اور کیپٹن ہمارے بھائی ہمارے محافظ ہیں ، انتہائی دکھ ہوتا ہے جب یہ حادثات ہوتے ہیں ۔دونوں طرف ہمارے بھائی ہی جان سے جا رہے ہیں ، بلوچ کون سا ہمارے سوتیلے ہیں ، ناراض ہیں اس ناراضگی میں باغی ہوگئے ہیں کیونکہ ان کی ناراضگی دور نہیں کی جا رہی ہے ان کے سرداروں سے انڈر ٹیبل ڈیل ہوتی ہے کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں اور بلوچ پھر بھی غریب رہتا ہے ۔

عسکری قیادت جو کہ دراصل ریاستی قیادت ہی ہے باقی تو سب کٹھ پتلی ہوتے ہیں چاہے کوئی بھی حکمران ہو ، ہلیری کلنٹن نے پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ ( گہری ریاست ) کہا جس کا مطلب وہ ریاست جس کو ایجنسیز کنٹرول کرے ، اس نے یہ تک کہہ دیا اگر آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو غائب کردیے جائیں گے ، جیل جائیں گے ، نااہل کردیے جائیں گے یا قتل کردیے جائیں گے ، ہوسکتا ہے کہ ہلیری کا تجزیہ غلط ہو بہرحال ہلیری کوئی گلی کے نکڑ پر تبصرہ کرنے والا حجام نہیں ہے ، دنیا کے مضبوط ترین ملک کے دو دفعہ صدر رہنے والے کی بیوی ہے اور سابقہ صدارتی امیدوار ہے۔

ہم خود دیکھتے ہیں الیکشن سے پہلے وفاداریاں بدلی جاتی ہیں ، وزارتِ زراعت کے نام پر امیدوار کو ہراساں کیا جاتا ہے ، الیکشن سافٹ وئیر سسٹم بند کردیا جاتا ہے ، فارم پینتالیس روک لیے جاتے ہیں ، ججز پر پریشر دیا جاتا ہے ، اپنے اثاثوں کا حساب ٹی وی پر دیتے ہیں اور ججز کو عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے ، صحافیوں کو اغواء کیا جاتا ہے نوکریوں سے باہر کروایا جاتا ہے ، لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں اس کے پیچھے کچھ تو ہے ۔

کل جنرل باجوہ کے خلاف گجرانوالہ میں جو نعرے لگے یہ لمحہء فکریہ ہے اور قابلِ افسوس ہے ، جب بھی عسکری طاقتیں غیر مقبول قیادتوں کو انجینئرنگ کے ذریعے حکمران بناتی ہیں تو ملک میں پھر فوج کے خلاف نفرت بڑھتی ہے ، خاص کر موجودہ حکومت جس کی نااہلی روز کوئی گل کھلاتی ہے ، بیچارا نیازی خود کہہ اٹھا میرے فون بھی ٹیپ کیے جاتے ہیں ۔

جنرل صاحب ! خدارا ہماری فوج کا تشخص برقرار رہنے دیں ، سیاست سے توبہ کریں ، ملک کی حفاظت کریں اور ناراض پاکستانیوں کو منانے کے لیے سول حکومت کو ہی کوشش کرنے دیں ، باغی کا سرٹیفیکیٹ بانٹنا ختم کریں ، آپ کے بوٹ پالیشیے آپ کو خوش کرنے کے لیے آپ کی طرف مدعی بن کر کیس داخل کر دیتے ہیں کہ فلاں بھی باغی ڈھمکاں بھی باغی ۔

جنرل صاحب ! خدا کے لیے ملک کے بارے میں بھی سوچیں سیاست کرنی ہے تو ریٹائر ہوکر قانون کے مطابق ضرور حصہ لیجیے ، جو حلف اٹھایا ہے اس کا پاس رکھیے ، ورنہ جو نعرے سڑک پر لگ رہے ہیں کل کہیں آپ کے گھر تک نہ پہنچ جائیں ۔

حصہ
mm
صہیب جمال نے لکھنے لکھانے کی ابتداء بچوں کے ادب سے کی،ماہنامہ ساتھی کراچی کے ایڈیٹر رہے،پھر اشتہارات کی دنیا سے وابستہ ہوگئے،طنز و مزاح کے ڈرامے لکھے،پولیٹکل سٹائر بھی تحریر کیے اور ڈائریکشن بھی کرتے ہیں،ہلکا پھلکا اندازِ تحریر ان کا اسلوب ہے ۔ کہتے ہیں "لکھو ایساجو سب کو سمجھ آئے۔