تربیت کی پہلی منزل

ہر محلے میں ایک خالہ ایک آپا ایک نانی ہوا کرتی تھیں جہاں بچیاں اور چھوٹے بچے قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ روزمرّہ کی گھریلو تربیت بھی لیا کرتی تھیں ۔

ہمارے محلے میں بھی ایک نانی تھیں ، ہم نانی کہتے تھے ہماری والدہ وغیرہ خالہ کہتی تھیں ۔نانی چکن کا کرتا لٹھے کی سفید شلوار سر سے پاؤں تلک سفید چادر اوڑھے اکثر کسی گھر میں تیمارداری ، عمومی ملاقاتوں یا دکان کے لیے نکلتی تھیں ، ان کے گھر میں ایک آم کا درخت تھا ، بس کیریوں کے زمانے میں ان کا اوڑھنا بچھونا ان کا آنگن ہو جایا کرتا تھا ، ان کو باہر دبے قدموں کی آہٹ بھی ہو جایا کرتی تھی اور جھٹ سے گیٹ کھول کر ڈنڈے سمیت باہر ہوتی تھیں ۔بہت پیار بھی کرتی تھیں راستے میں آتے جاتے سلام کرتے ان کے پاس رک جایا کرتے تھے تو وہ گھر کا احوال لیا کرتی تھیں ۔

ان کا کسی کو تنبیہہ کرنے کا طریقہ اچھا تھا یہ صبح دس بجے کسی من پسند گھر میں جاتی تھیں باتوں باتوں میں سبزی کاٹتے بچے کو بلا کر کہتی تھیں “تو کھیل کے دوران گالیاں کیوں دیتا ہے ؟ غصہ آئے تو قابو کر ” یا کوئی اور غلط چیز دیکھی تو اس کا ذکر کردیا کرتی تھیں ، پھر جس کو تنبیہہ کی اس کی قسمت صرف آنکھیں دکھائی جائیں ، ڈانٹا جائے یا پھر لال کی جائے ۔

ان کے گھر بچیوں کی تین شفٹ پڑھنے آتی تھی ، ایک صبح ، ایک دوپہر اور ایک شام ، بچیاں ان سے گھر کے کام کے معمولات سیکھا کرتی تھیں ، کپڑوں کی کٹنگ ، سلائی ، پرانے سوئیٹزر کو ادھیڑ کر اس کے اون کے گولے بنانا ، سوئیٹر بننا ، چھوٹے موٹے پکوان بنانا ، جھاڑو پونچھا کرنا ، انہوں نے ان کاموں کے لیے بچیوں کی عمر کی حد رکھی ہوئی تھی ، سات سال کی بچیوں سے پندرہ سال کی بچیوں تک مختلف کام تقسیم تھے اس سے چھوٹی بچیوں سے کام نہیں کرواتی تھیں زیادہ سے زیادہ گلاس ادھر سے ادھر رکھ دیے برتن باہر سے کچن میں رکھ دیے ، لڑکوں کے ذمہ باہر کا کام تھا یا سخت محنت والا ، چھت سے آم کے پتوں کی صفائی ، باہر سے پتوں کی صفائی ، باہر کیاری سے جنگلی پودے صاف کرنا ، گھاس کو پانی دینا اندر لگے پودوں کو پانی دینا ، مرغی کے دڑبوں کی صفائی ، باہر سے سودا سلف لانا ۔

ایسا نہیں کہ یہ مذکورہ بچے غریبوں کے بچے تھے یہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ، ان کو جان بوجھ کر تربیت کے لیے بھیجا جاتا تھا ۔نانی کے ہاتھوں سے پلے بچے بچیاں الگ ہی مزاج کے تھے ، آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں ان بچیوں کو میں آج تک دل سے بہن کہتا ہوں تو سوچیں کیسی تربیت ہوگی ۔

ایک چیز ضرور تھی قرآن مکمل تو ہو جاتا تھا مگر بچیوں بچوں کی تجوید بہت واجبی ہوتی تھی ، کیونکہ عموماً محلے کی خواتین جو قرآن پڑھایا کرتی تھیں نہ تو قاریہ ہوا کرتی تھیں نہ خود تجوید سیکھی ہوتی تھی انہوں نے بھی کسی خاتون سے ہی قرآن پڑھا ہوتا تھا۔

اس مضمون کا لبِ لباب یہ ہے کہ تربیت کی پہلی منزل گھر اور دوسری منزل محلّہ ہوتا ہے ، محلّوں کو پھر سے آباد کریں ، آباد کا مطلب میل جول ، برداشت ، تعلقات ، دل جوئی ، تحفے تحائف کے لین دین ، کھانے پینے کے ادل بدل کا رواج ، اس کو پھر سے زندہ کردیں ، بہت سے جرائم خود ختم ہو جائیں گے ، آنے والی نسلیں محفوظ ہو جائیں گی ، پہلے بھی انسانوں نے ہی یہ ماحول بنایا ہوا تھا ، اب بھی انسان ہی بنا سکتے ہیں ۔

حصہ
mm
صہیب جمال نے لکھنے لکھانے کی ابتداء بچوں کے ادب سے کی،ماہنامہ ساتھی کراچی کے ایڈیٹر رہے،پھر اشتہارات کی دنیا سے وابستہ ہوگئے،طنز و مزاح کے ڈرامے لکھے،پولیٹکل سٹائر بھی تحریر کیے اور ڈائریکشن بھی کرتے ہیں،ہلکا پھلکا اندازِ تحریر ان کا اسلوب ہے ۔ کہتے ہیں "لکھو ایساجو سب کو سمجھ آئے۔