والعصر۔۔۔۔۔

آج میرا بڑا بیٹا نماز فجر اور ورزش کے بعد واپس آ کر میرے پاس لیٹ گیا۔چند ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد پوچھنے لگا کہ ماما کیا یہ اکیسویں صدی ہے ؟

میں نے کہا ہاں یہ اکیسویں صدی ہے۔ پوچھنے لگا بائیسویں صدی کیسے اور کب آئے گی۔

میں نے کہا یہ کون سا سال جا رہا ہے کہنے لگا 2020۔ میں نے بتایا کہ دو ہزار کا مطلب بیس سو تو یہ بیس سو بیس ہے اب یہ بتاؤ کہ 2099 کے بعد کون سا سال آئے گا۔ کہنے لگا اکیس سو۔ میں نے بتایا کہ تب اکیسویں صدی ختم ہو جائے گی یعنی پورا 21 سو۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ 21 سو کے بعد کون سا سال آئے گا ۔کہنے لگا 2101.. ہاں تو بس یہ بائیسویں صدی کا آغاز ہوگا۔ پوچھنے لگا ماما میں اس وقت کتنے سال کا ہونگا۔ پھر ہم نے مل جل کر حساب لگایا تو وہ کوئی تقریبا 92 سال کا بنتا تھا۔کیوں کے اس وقت وہ بارہ سال کا ہے۔80 سال کے بعد وہ 92 سال کا ہو جائے گا۔ اس نے کہا ماما اس وقت تک تو میں زندہ نہیں رہوں گا۔

میرا حوصلہ نہ ہوا کہ میں یہ کہوں کہ وہ اس وقت زندہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا ضرور ی نہیں کہ تم زندہ نہ ہو ۔ تم زندہ ہو سکتے ہو کیونکہ کئی لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوتی ہے۔

وہ محبت سے میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ کہ جیسے کہہ رہا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ مگر آپ صرف مجھے تسلی دینے کے لئے اور اپنے دل کی تسلی کے لئے یہ کہہ رہی ہیں۔ پھر میں خود ہی اس کو بتانے لگی کہ میں تو یقینا مر چکی ہونگی اور میری قبر کا نشان بھی نہیں ہو گا۔یہ سن کر اس نے محبت سے بازو میرے گرد حمائل کر دیا اور تھوڑا اداس ہو گیا۔

پھر ہم نے اندازہ لگایا کہ اگر اس کی شادی 25 سال کی عمر میں ہوگئی ہوگی تو 2101 میں اس کے سب سے بڑے بیٹے کی عمر 65 سال اور اس کے پوتے کی عمر 38 سال جبکہ اس کے پڑ پوتے کی عمر 11 سال ہو گی۔ میں اسکو بتانے لگی کہ تقریبا سو سال کے بعد تمہارا پڑپوتا اپنی ماں کے پہلو میں یونہی لیٹا نئی آنے والی صدی کے متعلق سوال کر رہا ہوگا۔ مطلب تقریباً ایک صدی میں تین نسلیں۔۔۔ پھر ہم حساب کتاب کی اپنی اس حماقت پر مسکرانے لگے۔۔وہ ہنستا مسکراتا اٹھ گیا اور باہر چلا گیا۔لیکن میں کافی دیر تک وقت کے اس دھند میں الجھی رہی۔۔۔

پھر ایک جھماکے سے میرے دماغ میں 1999 چلنے لگا.. کتنا اچھا ٹائم  تھا گھر میں رونق تھی امی تھی ابو تھے دادی تھیں۔ وہ اپنے زمانے کے قصے سناتی تھیں۔ہم ان کے قصے سن کر گزرے ہوئے تاریخی واقعات کا اندازہ لگاتے تھے۔ جب وہ بتاتیں کہ بلوائیوں نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا تھا تو ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ وہ 47ء کی بات کر رہی ہیں ۔جب وہ اپنے بھائی کو یاد کر کے روتی تھیں اور بتاتی تھیں کہ ان کا بھائی پانی میں ڈوب کر شہید ہو گیا تھا تب ہمیں اندازہ ہوتا کہ وہ 71 کی جنگ کی بات کر رہی ہیں۔ان کے بھائی نیوی میں فوجی افسر تھے غازی سبمیرین میں ڈوب کر دوسرے شہدا کے ساتھ گمنام ہو گئے۔وہ پڑھی لکھی تو نہیں تھی لیکن تقسیم سے پہلے انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے انہیں انگریزی کے کچھ الفاظ بولنے آتے تھے۔ وہ ٹائم کا حساب ستاروں سے لگاتی تھیں۔جب ستاروں کی چمچ ہماری پانی کی ٹینکی کے عین اوپر آتی وہ بیدار ہوجاتیں اور نماز فجر کی تیاری میں لگ جاتیں۔ جب وہ اچھے موڈ میں ہوتیں

 تو ایک گانے کی لائن گنگناتی تھیں

کدے نئ پایاں سرم سلایاں

کدے نئ بیٹھی اکھ کڈ کے

اس زمانے کے گانے یا علاقائی ٹپے بھی حیا پر مبنی الفاظ پر مشتمل ہوتے تھے اس گانے میں بھی سرا سر حیا کا تصور آتا ہے۔

یقیناً ان کے بزرگ 1899 میں جوان ہوں گے اور انہوں نے انیسویں صدی کا آغاز دیکھا ہوگا۔اور دادی جان ہمیں رواں صدی کے قصے سناتی تھیں۔جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنے ہوں گے۔

پھر 1799 یعنی اٹھارویں صدی پھر 1699 یعنی 17ویں صدی ….. اسی حساب سے پیچھے بڑھتے جائیں تو وہی تلواروں گھوڑوں اور نیزوں کا زمانہ اور اس سے بھی پیچھے بڑھیں تو پتھر کا زمانہ۔پھر کتنا پیچھے چلیں گے اب کیوں نہ آگے بڑھیں۔

شاید 2120 کے کسی وقت میں میرے بیٹے کا پڑپوتا اپنی ماں کے پہلو میں لیٹ کر پوچھ رہا ہو گا کہ ماما کیا یہ بائیسویں صدی ہے۔ اور ماں اس کو جواب دے گی کہ ہاں یہ بائیسویں صدی ہے اور وہ پوچھے گا کہ 23 ویں صدی کب آئے گی۔ تو وہ اس کو تیز ترین حساب کتاب بتا کر سمجھا دے کی کہ 2201 تئیسویں صدی کا آغاز ہوگا۔ اور غالب امکان یہ ہے کہ بیٹے کو ماں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ شاید وہ کوئی سپر کمپیوٹر ایج ہوگا۔جس میں بچے تیز ترین معلومات والی ڈیوائسز کے ذریعے خود ہی جانچ پڑتال کر لیا کریں گے۔۔۔

اس ٹائم کے چکر نے آپ کو بھی گھما دیا ہے اور میں خود بھی گھوم گئی ہوں ۔ کہ کیسا وقت کا نظام چل رہا ہے۔ صدیوں پہ صدیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے ایک دائرے کے آگے دوسرا دائرہ اور اس کے آگے ایک اور دائرہ اور اس کے آگے پھر ایک اور دائرہ۔ بھول بھلیاں ہیں اور ہر بندہ اپنے وقت کے دائرے میں قید ہے۔۔۔ کوئی ٹائم مشین کے ذریعے نہ تو پچھلی کسی صدی میں جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اڑ کر اگلی کسی صدی میں جھانک سکتا ہے۔

یوں اپنے وقت کے پنجرے میں قید ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو صدی کے آغاز میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو پچھلی صدی سے اگلی صدی میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو صدی کے درمیان میں پیدا ہوتے ہیں اور اسی صدی میں اپنی عمر گزار کر رخصت ہو جاتے ہیں۔اور کچھ لوگ صدی کے آخر میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس وقت جو لوگ جوان ہوتے ہیں وہ اگلی صدی میں داخل ہو جاتے ہیں۔۔یہ تو ایک سیدھا سادہ سا حساب ہے ورنہ کئی لوگ عمر کے کسی بھی حصے میں فوت ہو جاتے ہیں اور اگلی منزلیں نہیں دیکھ پاتے۔۔

ہم اپنے وقت کے مخصوص دائرے کے اندر رہ کر زندگی گزارتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو دنیا جہان کی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے جبکہ کچھ لوگ محروم رکھے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ شہرت دوام حاصل کر لیتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کی دلوں کی دھڑکن بن جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ گمنامی کی زندگی بسر کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔کچھ لوگ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر بڑی بڑی ایجادیں کر جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ معمولی ذہنی صلاحیت کے حامل بھی نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ بڑی اعلیٰ اخلاقی قدروں کے مالک ہوتے ہیں بڑے وسیع القلب ہوتے ہیں, انسان دوست ہوتے ہیں , ہمدرد ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ معاشرے کے لئے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اگر اس پر بات کی جائے گی کہ کیسی کیسی صلاحیتوں اور کیسے کیسے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں تو بات بہت دور چلی جائے گی اس کے لیے تو پوری کتاب چاہیے۔اللہ تعالی نے ہر بندے کو دوسرے سے بالکل مختلف بنایا ہے , سگے بہن بھائیوں میں بھی اختلاف شکل اور اختلاف رائے موجود ہے۔تقدیر مختلف ہے, رہن سہن مختلف ہے ,رنگ و روپ مختلف ہے, علاقوں کی تقسیم مختلف ہے کسی کو پہاڑ پر بسا یا کسی کو زمین پر, کسی کو صحرا میں بسایا کسی کو گلستاں میں۔ اب بات کرتے ہیں وقت کی۔ ہمیشہ سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ وقت سب کو ایک سا دیا ہے ۔ مگر ہماری ناقص رائے کے مطابق وقت بھی سب کو ایک سا نہیں دیا۔کوئی پیدا ہوتے ہی عمر پوری کر لیتا ہے کسی کو چند گھنٹے دیے کسی کو آدھا دن کسی کو کو چھ ماہ دیےکسی کو سال دیا کسی کو بیس سال کسی کو ساٹھ سال کسی کو اسی سال۔اور کسی کو تو سو سال سے اوپر بھی وقت دیا۔اب اس کے حساب سے عمل کرنے کا موقع ملے گا اور اسی کا حساب کتاب ہوگا۔ قانون قدرت کے مطابق اگر سب کو صلاحیتیں مال و اسباب رہن سہن ایک سا نہیں دیا تو وقت بھی ایک سا نہیں دیا۔دنیاوی تعلیمی اداروں کے برعکس وقت کے اس دائرے میں سب کا امتحانی پرچہ الگ الگ ہے اور اس نے اسی پرچے کو حل کر کے کامیابی کے نمبر لینے ہیں۔اب اگر کوئی کسی دوسرے کے پرچے پر نظر ڈالے گا یا یہ سوچے گا کہ اس کو تو آسان پرچہ دیا گیا ہے اور مجھے مشکل دیا گیا ہے , میرے ساتھ تو زیادتی ہوئی ہے مجھے ویسا اور ویسا پرچہ ملتا تو اچھا تھا۔

ہاں وقت کے اپنے اپنے دائرے میں سب بنی نوع انسان کو ایک چیز مشترک ملی ہے۔۔اور وہ ہے اس دنیاوی امتحانی نظام کا ” سلیبس ” ۔۔۔۔!!!

سلیبس جس کو ہم نصاب کہتے ہیں۔یہ نصاب سب کا ایک سا ہے اور یہ نصاب ہے قرآن پاک اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔۔۔ جس نے اس نصاب کو پڑھ لیا اور نہ صرف پڑھ لیا بلکہ اچھی طرح سے سمجھ لیا اور دل میں اتار لیا اس کے لئے مشکل سے مشکل امتحان دینا آسان ہو جائے گا اور جس نے نصاب پڑھا ہی نہیں اگر پڑھا تو اسے سمجھا ہی نہیں , وہ آسان سے آسان امتحانی پرچہ بھی مشکل سے حل کرے گا۔ اب یہاں پر بھی نصاب پڑھنے والے دو طرح کے لوگ ہیں رٹا سسٹم کے لوگ لوگ اور شعور و فہم کے لوگ۔رٹا سسٹم کے لوگوں نے نصاب کو اچھی طرح یاد کر لیا ہوتا ہے ان کو ایک ایک لفظ اور ایک ایک لائن ازبر ہوتی ہے حتیٰ کہ صفحہ نمبر بھی یاد ہوتا ہے۔مگر عمل کی دنیاسے خالی ہوتے ہیں۔بس طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا عالم و فاضل سمجھتے ہیں۔

مگر فہم و شعور کے لوگ جو کچھ پڑھتے ہیں اس کو سمجھتے بھی ہیں اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں دلیل کے ترازو پر اس کو تولتے ہیں۔حق نکلے تو دل و جان سے قبول کرتے ہیں باطل نکلے تو الگ ہو جاتے ہیں ۔اب ظاہر ہے کہ ان کے نتائج بھی الگ الگ آئیں گے۔

“عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔

والعصر کا یہی تو پیغام ہے کہ ایمان لانے والے٫ عمل کرنے والے, حق بات کہنے والے اور صبر کرنے والے والے کامیاب ہیں باقی سب ناکام ۔۔ خسارہ ,خسارہ, خسارہ اور بس خسارہ …………!!!!

چونکہ زمانہ ایک امتحان ہے اس لئے سب کو یکساں نہیں نوازا۔ سب کو اس کا الگ پرچہ دے دیا ہے اب اس کو اچھے طریقے سے حل کر لیں۔تاکہ وقت کے دائرے سے نکل کر جب ہم لامحدود وقت کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہوں تو پاس شدہ امتحانی سند ہمارے پاس موجود ہو۔اور اس پر اچھا گریڈ ہو۔تاکہ لہرا لہرا کر اس کو سب کو دکھا سکیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں وہ اپنی پیٹھ پیچھے چھپا نا پڑے۔۔