اپنے دیس کا ہر رنگ حیا والا

کل گالا بسکٹ کا ناچتا تھرکتا اشتہار ٹی وی پر آن ائیر ہوا اور پھر یہ ٹرینڈ بن گیا ۔پہلے کچھ ٹیکنیکل بات، ہماری فیلڈ میں کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آئیڈیا نہ آ رہا ہو تو “لڑکی نچوا لو” پروڈکشن ہاؤس کی بھی جان چھوٹ جاتی ہے اور کلائنٹ کا نمائندہ جس کو برانڈ مینیجر کہتے ہیں اس کی جان بھی چھوٹ جاتی ہے ۔

اشتہار سے پہلے کلائنٹ کو یہ ناچنے والے اشتہار سمجھانا بھی آسان ہوتا ہے ، انڈین آئٹم سانگز بھرے پڑے ہیں ، اردگرد کا ماحول بھی بھرا پڑا ہے کہ ساتھی ڈانسر کیا کر رہے ہوں گے ، اس میں برانڈ مینجر کی دوڑ بندر والی دوڑ ہوتی ہے اس کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ سیٹھ کے سامنے یہ بتائے کہ میں نے فلاں چیز کا رنگ چینج کروادیا ، اس میں دیوار ایسے کروادی فلاں چیز بدل دی ، اس کو اپنی نوکری حلال کرنی ہوتی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اشتہار کی پنچ لائن “میرے دیس کا بسکٹ گالا” بہت زبردست ہے ، مگر یہ بھی ہوائی بات ہے ، میرے دیس کا بسکٹ اگر دیکھا جائے تو نان کتائی ہی ہے ، چلو پھر بھی اچھی لائن ہے ۔ تو قصہ مختصر یہ کہ نچوانا آسان ہے نئے آئیڈیاز سوچنا مشکل کام ہے ، مہنگے ایکٹر ، مہنگا آرٹ ڈائیریکٹر ، مہنگا میوزک ڈائریکٹر ، مہنگا شاعر (اس اشتہار کی شاعری ویسے بہت واجبی ہے تک بندی ہے) اور مہنگا سیٹ بنانا مشکل کام نہیں ، پیسہ پھینکو اور سب کرلو ۔

نظریاتی بات اس اشتہار کی یہ ہے کہ یہ مجرہ یہ ڈانس کلچر ہمارے دیس کا کلچر نہیں ہے آپ جتنا بھی شور کرلیں پچانوے فیصد خاندانی لوگ اب بھی عورتوں کے ناچ پسند نہیں کرتے اور ننانوے اعشاریہ نناوے فیصد مجرہ دیکھنے والے اپنی عورتوں کو ناچتا دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ ہمارا کلچر اور دین بہت الگ ہے بہت کریٹیو ہے ، ہمارے دین میں سوچ لامحدود ہے ، ریسرچ کرتے رہو عقدے کھلتے جاتے ہیں اور ساری ریسرچ ہدایت کی طرف جاتی ہے ۔

اس کا سیاسی پہلو ، نیازی حکومت سے لاکھ اختلاف سہی ، مگر جس طرح یہ لوگ ایسی چیزوں پر ایکشن لیتے ہیں قابلِ ستائش ہے ، اس حکومت سے ہم مہنگائی کی توقع رکھ سکتے ہیں ، کرپٹ لوگوں کی پشت پناہی کی امید ہوسکتی ہے مگر عمران خان اور اس کے چند لوگ یہ نیشنل سطح کی عامیانہ حرکت برداشت نہیں کرسکتے ہیں ، اس گالا کے اشتہار کو بند کردیا گیا اس پر پابندی لگا دی گئی ، اچھی بات کو اچھا کہنا بھی ہمارا دین ہے ۔

اب آ جائیں انصار عباسی کی طرف یہ اس طرح کی بیہودگیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ دیسی لبرل ان کے خلاف ایک مہم بناتے ہیں ، مگر ٹوئیٹر پر جس طرح ان کا ساتھ دیا گیا میرا خیال ہے دیسی لبرلز حیران ہیں ۔

غریدہ فاروقی کہتی ہے کہ “ہم مہذب عورتیں ایسا ڈانس دیکھنا چاہتے ہیں اگر پیمرا نے سوشل میڈیا پر اس اشتہار کی مخالفت کی وجہ سے اس کو بند کیا ہے تو یہ جمہوریت ہے ہم یہ ڈانس دیکھنا چاہتے ہیں”

باجی جی تم کو کس نے منع کیا ہے اپنے گھر محفل سجاؤ ، اپنے دفتر میں یہ محفل رکھو ، اپنے دوستوں کو جمع کرو کسی بڑے گھر کے آنگن فارم ہاؤس میں ناچو ہماری بلا سے ، مگر نیشنل چینلز پر اشتہار کے نام پر اکثریت کی دل آزاری منظور نہیں ہے ۔

جاتے جاتے ایک بات انصار عباسی کا شکریہ انہوں نے میرا ٹوئیٹ ری ٹوئیٹ کیا ، ٹوئیٹ کا لنک پہلے کمنٹ میں ہے ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

حصہ
mm
صہیب جمال نے لکھنے لکھانے کی ابتداء بچوں کے ادب سے کی،ماہنامہ ساتھی کراچی کے ایڈیٹر رہے،پھر اشتہارات کی دنیا سے وابستہ ہوگئے،طنز و مزاح کے ڈرامے لکھے،پولیٹکل سٹائر بھی تحریر کیے اور ڈائریکشن بھی کرتے ہیں،ہلکا پھلکا اندازِ تحریر ان کا اسلوب ہے ۔ کہتے ہیں "لکھو ایساجو سب کو سمجھ آئے۔