بتائیے، سُنا ہے نا آپ نے؟

شخصی آزادی، تحفظ، عدل و انصاف، امن و امان، قانون کا نفاذ، اور وسائل کی تنظیم اور منصفانہ تقسیم جیسے کام، ریاست کے بنیادی اغراض و مقاصد میں شامل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ریاست یہ کام ٹھیک سے نہ کرے تو راج پاٹ کو کیا غرض کہ ان پر کوئی گورا حکومت کر رہا ہے یا کالا، کافر حکمران ہے یا حاجی نمازی!

دل چاہتا ہے ہزار سال پہلے والا قبائلی دؤر، پھر واپس آ جائے جس میں انسان زیادہ تر آزاد تھے۔ بھوک لگی تو شکار کر لیا، یا گھر میں پالے جانوروں میں سے کسی مرغ یا بھیڑ بکری کو ذبح کر لیا، سال بھر کا غلہ اگا لیا، آگ جلانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں کاٹ لیں، سورج غروب ہونے سے قبل لالٹین یا چراغ میں تیل ڈال کر طاقچوں میں سجا دیا۔ جہاں خالی زمین نظر آئی، پڑاؤ ڈال لیا۔ آس پاس سے مٹی اور سرکنڈے لے کر دیواریں کھڑی کر دیں، ان پر لکڑی یا بانس کی چھت ڈال لی۔ چور اُچکوں سے نمٹنے کے لیے ہتھیار خرید لیے یا خود بنا لیے۔

اللہ کی زمین وسیع تھی۔ نہ کوئی پاسپورٹ تھا نہ سخت سرحدات۔ جس کا جہاں دل کرتا چلا جاتا اور مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل کر “مقامی بن جاتا۔ چاہتا تو اپنے نام کے ساتھ اپنی اصل سرزمین کی شناخت بھی لگا دے۔ جیسے، خراسانی، بغدادی، بخاری وغیرہ۔ نہ کوئی نفرت، نہ یہ شور کہ فلاں غیر ہے اسے نکالو!!

اب؟؟ اللہ کی زمین پر قبضہ ہو چکا۔ کوئی ایک چپّہ بھی آزاد نہیں رہا۔ اب کہیں بھی جانے کے لیے پیشگی اجازت چاہیے۔ پاسپورٹ کے نام پر ہزاروں روپے دے کر کاغذ کی ایک ڈائری بنوائیں، پھر، زر زمین، جائیداد بیچ کر خالی ہوتھ ہو کر کسی ملک پہنچیں، وہاں اجنبی اور دوسرے نمبر کے شہری بن کر مقامی لوگوں کی نفرت اور تنگدلی کے تیر سہیں۔

پاسپورٹ کو چھوڑیں، آپ کو اپنے ملک کی شہریت کا کارڈ بنوانے کے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ ٹیکس کے نام پر دنیا بھر میں لوٹ مار جاری ہے۔ لوگوں کی خون پسینے کی کمائی سے چالیس پینتالیس فیصد تک، ٹیکسوں کی مد میں وصول کر لیا جاتا ہے۔ ٹیکس بھی طرح طرح کے ہیں۔ یہ فلاں ٹیکس، یہ فلاں ٹیکس۔ اور تو اور اب بیچارے ان لوگوں کو بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے جو خود زکوٰۃ خیرات کے مستحق ہیں۔ بیمار، فقیر، نادار۔۔۔۔یہ سب چائے پتی اور دوائیوں پر ٹیکس دیتے ہیں۔

ٹیکسوں کے نام پر جب اتنی بڑی دولت جمع ہو جائے، کوئی نظام، کوئی خوفِ خدا، کوئی شعورِ امانت نہ ہو تو لامحالہ ایک ٹولہ وسائل پر قابض ہو جاتا ہے پھر اسی طاقت کے بل بوتے پر وہ اللہ کے بندوں کو، جو کہ آزاد پیدا ہوئے تھے، اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ قانون کے نام پر ان کی گردنیں اپنے سامنے جھکواتا ہے۔ سیکیورٹی اور حب الوطنی کے نام پر ان کی شخصی آزادیوں کو سلب کرتا ہے اور جس پر چاہے غداری کا الزام رکھ کر الٹا لٹکا دیتا ہے۔ بستیوں کی بستیاں، وطن کی حفاظت اور دفاع کے نام پر راکھ کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں۔ گویا کہ پہاڑوں، ریگستانوں، ندیوں اور سڑکوں کا مجموعہ، جسے “وطن” قرار دے دیا جاتا ہے، انسانی جان سے زیادہ محترم بن جاتا ہے جس کی حرمت کی قسم، آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبۃ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کھائی تھی۔

اب ہم جس دؤر میں جی رہے ہیں وہاں ہر گاڑی ٹیکس دیتی ہے، لیکن سڑکوں کی حالت دیکھیں۔ ہر گھر تک بجلی کے تار اور گیس کی لائنیں پہنچا دی گئی ہیں جس کے مقرر ماہانہ چارجز بھی وصول کیے جاتے ہیں لیکن چوبیس گھنٹوں میں آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔ گیس کے چولہوں سے پریشر غائب رہتا ہے۔ دفتروں میں رشوتیں، عدالتوں میں عدل کا ہر روز قتل، آئے دن مختلف بہانوں سے نت نئے ٹیکس، پولیس کی چیرہ دستیاں، جمہوریت کے نام پر اسمبلی ممبرز کے نام پر بڑے بڑے ریوڑ پالے ہوئے ہیں جن کے لیے اربوں روپے کا سالانہ بجٹ مختص رہتا ہے لیکن آؤٹ پٹ کچھ نہیں۔ بات بہت لمبی ہو جائے گی کہ دکھ شدید گہرے ہیں۔

ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر، اور جدید آلات ہی سب کچھ نہیں ہوتے، انسان ان کے لیے نہیں، یہ سب چیزیں انسان کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر یورپ و امریکہ کی ترقی میں کسی کو سکون نظر آتا ہے تو وہ بھی غلط رخ پر سوچ رہا ہے۔ انسان وہاں کا بھی دکھی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کے دکھوں کی نوعیت ہم سے مختلف ہے۔

تو پھر کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ آج کا انسان، ایک ہزار سال قبل والے انسان سے زیادہ دکھی، مجبور۔۔۔ بلکہ “غلام” بن چکا ہے، قطع نظر اس بحث کے کہ پہلے “شخصی غلامی” تھی، اب “اجتماعی غلامی” ہے؟ پہلے چند لوگ غلام بنتے تھے، اکثر آزاد تھے، آج، ہر فرد غلام ہے، کوئی ایک بھی آزاد نہیں؟ بلکہ، اب تو قوموں کی قومیں غلام بن چکی ہیں۔

آپ نے کسی ملک کے بارے میں ضرور سنا ہوگا کہ اس کا ہر بچہ، پیدا ہوتے ہی اتنے اور اتنے کا مقروض بن جاتا ہے۔

بتائیے، سُنا ہے نا آپ نے؟