عیب

سامنے میک اپ کا سامان پھیلا ہوا تھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔۔!

بس آئینے کے سامنے کھڑی اداسی سے اپنے عکس کو تکے جارہی تھی۔چہرے پر ماہ و سال کی تھکن کی دبیز تہہ چڑھ رہی تھی۔اپنی تقدیر کے سنورنے کا انتظار کرتے کرتے اب تو آنکھوں کے چمکتے جگنو بھی ماند پڑنے لگے تھے۔

قدموں کی آہٹ پر اس نے گردن موڑ کر ایک اچٹتی ہوئی نظر اندر آنے والی عورت پر ڈالی،پھر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔

”بیٹی،وہ لوگ آنے والے ہیں۔۔تم تیار نہیں ہوئیں اب تک؟”عورت نے اس کے سامنے پھیلی ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”کیا کرنا ہے میں نے تیار ہوکر امی،ہونا تو وہی ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے!”۔بلا کی اداسی چھپی تھی اس کی آواز میں۔

” نہیں بیٹی،بدشگونی کی باتیں مت کر۔۔دیکھنا اس بار قسمت کھل ہی جائے گی میری بچی کی”۔وہ اس سے زیادہ خود کو تسلی دے رہی تھیں۔

”ہونہہ،قسمت!!”۔۔ایک زہر خند سی مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔” اماں ہم جیسی کی قسمت نہیں کھلا کرتی،ہمارے مقدر پہ یہ دنیا بہت بڑے اور کبھی نہ کھلنے والے تالے لگاکر چابی لڑکے کے گھروالوں کے ہاتھ میں تھمادیتی ہے،پھر ان کی مرضی کہ وہ قفل کھولیں یا عمر بھر کے لیے بند کردیں”۔

” ہم مجبور ہیں بیٹی،ہم دنیا کی ریت رواج کے آگے مجبور ہیں۔۔ میں نے بھی یہ سب جھیلا تھا،تمہیں بھی سہنا ہوگا”۔ماں کے دل میں دھواں سا بھر رہا تھا۔

”میں تھک چکی ہوں اب،نہیں سہا جاتا امی،نفرت ہوتی ہے اپنے آپ سے جب بھائی کو کولہو کے بیل کی طرح کماتے دیکھتی ہوں،دکھ ہوتا ہے جب بابا کو پریشان دیکھتی ہوں،شرمندگی ہوتی ہے جب آپ کو راتوں کو اٹھ اٹھ کر انگلیوں پہ اپنی زندگی کے سال گنتے دیکھتی ہوں۔۔صرف اس لیے کہ…کہ کوئی مجھے میری سانولی رنگت کی وجہ سے قبول نہیں کرتا،اور جو کرنا چاہتے ہیں منہ پھاڑ کر جہیز مانگتے ہیں،ہماری غربت ہمارے لیے عیب بن گئی ہے”۔آنسووں نے پلکوں کے بند توڑ ڈالے۔

” بیٹیاں جب پیدا ہوتی ہیں تو ماؤں کی نیندیں روٹھ جاتی ہیں! تمہاری پیدائش کے دن سے لے کر آج تک میں جہیز کا صندوق بھرتی آئی ہوں،مگر کیا کروں،تیس سال  بعد بھی نہ تو کوئی پلاٹ ہی لے سکے،نہ گاڑی اور ہی اپنا مکان!نہ اتنا بنک بیلنس ہے کہ لڑکے والوں کے مطالبات پورے کرسکیں،تمہارے ابا ہمیشہ حلال کماتے رہے۔۔کاش کہ ان کی تنخواہ میں یہ سب ہوسکتا! ”۔

”کاش میں نہ ہوتی امی،تو آپ سب اتنے پریشان نہ ہوتے۔۔زندگی اتنی مشکل نہ ہوتی،اچھے  رہے وہ لوگ جو بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مارڈالتے تھے”۔بے بسی سی بے بسی تھی۔

پاگل نہ بنو،خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کا امتی بنایا،ان کی بھی تو بیٹیاں تھیں۔

” امی ان کی بیٹیاں تھیں،یہ تو سب کو یاد ہے۔۔ان بیٹیوں کو جہیز میں کیا دیا تھا!یہ کوئی یاد کیوں نہیں رکھتا؟ان بیٹیوں کو بوجھ نہیں بنایا گیا تھا یہ کوئی یاد کیوں نہیں رکھتا…دوسروں کے اعمال پر فتویٰ لگانا تو سب کو یاد رہتا ہے،لیکن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانا کیوں یاد نہیں رہتا؟”۔سوال نہیں خنجر تھے،لیکن کاش!!یہ خنجر اس معاشرے کے سینے میں بھی ترازو ہوسکتے۔

”ہم ایک منافق معاشرے میں رہتے ہیں بیٹی،یہاں زبان پر کچھ ہوتا ہے اور دل میں کچھ،ہر کوئی دوسروں کی اصلاح کے لیے تیار رہتا ہے مگر اپنی نہیں،خیر۔۔کیا باتیں لے بیٹھی ہیں ہم بھی۔۔چلو جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔لڑکے کی ماں آتے ہی ہوگی”۔ماں اس کے آنسو پونچھ کر باہر نکل گئی اور وہ ایک بار پھر امید و بیم کے پل صراط پہ چلنے کے لیے تیار ہونے لگی۔