ستم کا آشنا تھا وہ ۔۔۔۔

Abdul Ghaffar Aziz

شخص نہیں وہ تو تحریک تھا ۔۔۔۔مسکراتا چہرہ  کئی بار  بلا مشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا  ۔گفتگو کا عجب انداز  تھا ۔بین الاقوامی  حالات کے ساتھ جوڑ کر اسلامی دنیا کو اس طرح پیش کرتے کہ سامع  خود کو وہاں موجود پاتا تھا  ۔عربی ، فارسی ، انگریزی اور کئی بڑی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ تقریر کے دوران  الفاظ کا استعمال اس طرح کرتے کہ جیسے  موتیوں کی لڑی ہو۔ان خوبیوں کی وجہ دراصل ان کا اپنے کام کے ساتھ  اخلاص تھا ۔محترم عبدالغفار عزیر صاحب   اس شعر کے مصداق تھے کہ

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے  ہیں  ہم امیر 

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

 

(شیخ الاستاد عبد الغفار عزیز مرحوم کی جسارت کا حصہ بننے والی تحاریر پڑھنے کیلیے کلک کریں)

وہ  رہتے تو پاکستان میں مگر ان کا دل پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتاتھا۔یہ مرد مجاہد ہر وقت تیار رہتا تھا کہ کب  دنیا کے کسی کونے سے کوئی  پکارے تو میں اس کے پاس جاؤں ۔ اسلامی دنیا میں جہاں کہیں بھی  مسلمانوں کے حوالے سے کوئی اجتماع ہوتا  ۔ اللہ کا یہ بندہ    پہنچتا اور اپنی پوری قوت سے  امت کے مسائل کو  اجاگر کرتا اور اپنی کوشش کی آخری حد تک جاتا کہ   مسئلہ  حل ہوجائے ۔

کشمیر  میں بھارت کی بربریت ہو فلسطین  میں صہونی مظالم ہو لیبیا ،  شام میں خانہ جنگی  ،عراق     اور افغانستان میں امریکی بمباری ہر ایک کے لیے تڑپتے ۔آپ کی جدوجہد صرف  مسلمانوں  پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ تھی بلکہ یہ جدوجہد مظلوم انسانیت کے لیے تھی۔ایک بہت بڑا خلا ء ہے جو کہ ان کی رحلت سے پیدا ہوا ہے  جو کہ نہ صرف جماعت اسلامی   اپنے ڈائیریکٹر امور خارجہ  سے محروم ہوئی ہے بلکہ ایک توانا آواز جو کہ اہل کشمیر ، اہل فلطین  اور دنیا کے مظلوم انسانو ں کے لیے اٹھا کرتی تھی۔

عبدالغفارعزیزصاحب ایک دینی اور متموّل خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کی پرورش دینی ماحول میں ہوئی ۔اسلام کی محبت ان کی گھٹّی میں  پڑی تھی ۔ ابتدائی تعلیم  پاکستان میں حاصل کی اعلٰی تعلیم کے لیے قطر تشریف لے گئے جہاں  معہد العلوم  الشرعیہ  سے عربی زبان اور عربی ادب  کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔آپ کو قرآن  و حدیث اور سیرت  سے بڑی وارفتگی تھی ۔آپ   ایک کہنہ مشق  قلمکار تھے  ۔ آپ کی تحریریں  اس بات کی گواہ ہیں ۔علامہ یوسف القرضاوی سے فیض پایا اور تعلیم و تربیت کے منازل طے کیے ۔ علامہ ان سے بے حد محبت کرتے ۔ علم  کی جستجو ان کی زندگی کا نمایاں  حصّہ رہا  اس کے بعد انہوں نے قطر یونیورسٹی سے  جرنلزم کی ڈگر حاصل کی ۔ آپ شیخ الااستاذ عبدالغفارعزیز بھی کہلاتے تھے ا س کی وجہ  آپ کی  علمی شخصیت تھی ۔

عبد الغفار عزیز صاحب نے اپنی زندگی دین کے لیے وقف کررکھی تھی۔ آپ کو زندگی میں بڑے مواقع  ملے جب آپ اس دنیا میں جاہ و منصب حاصل کرسکتے تھے  مگر آپ نے  اپنے آپ کو دنیا میں الجھانے کے بجائے   اقامت دین کے راستے کا انتخاب کیا  ۔ آپ نے بحیثیت  ڈائیریکٹر  امور خارجہ جماعت اسلامی اپنے فرض منصبی کا حق اداکیا ۔ عبدالغفار عزیر صاحب  پوری دنیا میں   مظلوموں کے حق کے علمبردار تھے  ۔ جراءت اور بہادری سے  اہل فلسطین ،کشمیر  ، برما ،شام  اور لبنان کے لیے آواز اٹھاتے  ۔آپ عالمی  اسلامی تحریکوں سے ہر وقت رابطے میں رہتے اور فکرمندی کے ساتھ اپنے کام کو کرتے ۔ آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے  ۔

دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں  ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تمام جدوجہد  کا مرکز و محور ان کی اپنی ذات ہوتی ہے ۔ وہ اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں  جبکہ دوسری طرح  کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ پہلی قسم کے لوگ  جلد بھلادئے جاتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ   دنیا  میں لوگوں کے دل و ذہن میں زندہ رہتے ہیں ۔ان کی زندگی اپنے بعد آنے والوں  کے لیے مینارہء نور کا کام کرتی ہے ۔اپنی ذات کے لیے زندہ رہنا تو آسان ہے  مگر دوسروں کے لیے زندگی جینا  مشکل ہے ۔لیکن جب انسان دوسروں کے  لیے جیتاہے تو دیکھنے والے کو  وہ مشکل میں نظر آتاہے  لیکن حقیقت میں وہ اپنی زندگی سے مطئین ہوتاہے اور اس پر سکینت نازل ہوتی ہے ۔ عبدالغفا عزیز صاحب ایک سال سے زائد عرصے  کینسر جیسے مرض میں مبتلا رہے  گاہے گاہے  دعائے صحت کے پیغامات  آتے رہے ۔مگر شیخ صاحب  اطمینان سے اپنے فرض کو ادا رکرتے رہے اور جو عہد اپنے رب سے کیا اس کو نبھاتے رہے ۔اللہ  ان کو غریق رحمت کرے آمین۔

ستم کا آشنا تھا وہ  سبھی کے دل دکھا گیا 

کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا 

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آگئی

وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دیئے جلا گیا

سکوت میں بھی اس کے اک ادائے دلنواز تھی

وہ یار کم سخن کئی حکایتیں سنا گیا

ستم کا آشنا تھا وہ  سبھی کے دل دکھا گیا 

کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا