اے ملت مسلم تیرا اللہ نگہبان

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

کشمیر دنیا کا ایک حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں اب تلک گرچہ مسلکی منافرت یا مذہبی چپقلش کے نام پر کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہوئی بلکہ اکثر صبر و تحمل اس قوم کا خاصہ رہا ہے جو اپنی نسبت وادی سے کرتی ہے

پرالمیہ یہ ہے کہ اب یہاں بھی دیدہ و دانستہ ایسے کام کئے جارہے ہیں جس سے کم از کم اسلامی تعلیمات آشناء  نہ تھیں آج تک پر اب جب کہ دنیا میں ہر چہار سو یہ مصیبت دندنا رہی ہے اپنی تمام تر غلاظت کے ساتھ تو وادی کشمیر کا علاقہ بھی اس کی لپیٹ میں آہی گیا آئے روز اسلام کے نام پر مساجد میں مقابلہ آرائی مناظرہ بازی کے نام کی دکانوں کو آراستہ کیا جارہا ہے اور کچھ من چلے بڑی ہی چابک دستی سے خود کو بحیثیت مناظر اسلام منوانے میں کامیاب بھی ہورہے ہیں اور ہر کسی کا چہیتا سب سے قابل سب سے بڑا اہل علم تقوی شعار اور محب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بنا پھر رہا ہے اور یہ مشغلہ روز بروز پروان چڑھتا جارہا ہے یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اکثر کبار علماء کرام جو یہاں کی مختلف فکر و افکار کے روح رواں ہیں ایسی مجالس سے دور ہی رہتے ہیں

ہوتی نہین جو قوم، حق بات پہ یکجا،

اس قوم کا حاکم ہی بس انکی سزا ہے.

غنی شیخ کا نیا فتنہ اور سوشل میڈیا کے مفکر۔

ویسے تو تب سے جب سے یہاں ہنگاموں نے اپنا بسیرا بنا لیا ہے اس قوم کو ایسے پاسبانوں نے دکھ اور الم کے سوا کچھ بھی نہ دیا جو ان حالات کی پیدا وار ہیں جو یہاں پچھلے تیس پینتیس سال سے بنے ہوئے ہیں حالات نے جہاں یہاں پر طرف ماتم غم کرب یتیم بیوہ قتل دہشت وحشت درندگی بھوک پیاس لاش جیسے الفاظ کو عملی جامہ پہنا دیا وہیں یہاں علوم اسلامیہ کے بارے میں بھی ہنگاموں نے اپنی جگہ بنانے کے لئے کوشاں و سرگرداں رہے تصوف عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کچھ زیادہ ہی تجار پیدا ہوتے رہے جو بجائے اس کے کہ قوم و ملت کے لئے کچھ کرتے بلکہ ان درندہ صفت اور شیطان کے پجاریوں نے یہاں کی قوم کے لئے ایک نہ ختم ہونے والا درد اور کرب پوری قوم کو دیا مثال ہم گلزار پیر نامی اس مبلغ کی دے سکتے ہیں جو اسلام کے نام پر ہزاروں لوگوں کی گمراہی کا سبب بنا جس کے مریدین اسے ڈاکٹر ذاکر نائک کے ہم پلہ سکالر کہتے ہوئے مسرور ہوا کرتے تھے پر تماشہ تب ہوا جب اس پر کچھ خواتین نے جنسی ہراسگی کا دعوی کردیا اور اسے قانون کے محافظ کلمہ یا آیت الکرسی دعائے قنوت سنانے کو کہتے ہیں تو یہ شخص ہاں ہوں کرکے اپنی علمی بصیرت کا چراغ جلانے کے لئے کوشاں ہوجاتا ہے جس کے جواب میں اسے کچھ اس کے لائق الفاظ کا تحفہ ملتا ہے قوم نے اپنا شعور کہاں برباد نہ کیا یہاں ان سالوں میں مختلف ایسے حادثات و واقعات رونما ہوتے گئے جہاں ہماری بیٹیوں کو جاڑ پھونک کے نام پر عزت و رفت کی قیمت ادا کرنی پڑی یہ سلسلہ گر چہ ہر طرف اپنی ابلیسیت کا راج کر رہا ہے پر ہماری وادی اب اس کی زد پر کچھ زیادہ ہی آگئے بڑھ رہی ہے۔

یہاں آئے روز کوئی نشہ باز خود کو کرامات دیکھانے والا کہتا ہے کوئی صاحب خود کو محافظ جنات کہلانا پسند کرتا ہے تو کوئی کسی اور نام سے اسلام کا لبادہ اوڑ کر قوم کے لئے درد سر بنا پھر رہا ہے یقین کریں کہ یہ من چلے کچھ اس قدر ذہین ہیں کہ بیٹھے بٹھائے لاکھوں کروڑوں کے مالک بن جاتے ہیں بس کچھ ابلیسیت کے کارنامے انجام دیے ہیں جو گر چہ ان کے نافلق ان متوالوں کی افواہ ہی کیوں نہ ہو جسے ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لئے یہ ہر طرح سے تیار ہوتے ہیں۔

کہ اپنے پیر خاص کے بارے میں کچھ اس قسم کے افسانے سناتے پھرتے رہتے ہیں کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو ایک بار دیکھنے کی تمنا کر لیتا ہے۔

کسی ماں کا لخت جگر غائب ہے یا کسی کا شوہر یا کسی معصوم بیٹی کا بھائی تو یہ مریدین اپنی حاضری لگا کر ان ستم رسیدوں پر اک اور ستم ڈھانے کے فراق میں اپنے پیر کے کمالات کی ڈائری لے کر آ ٹپکتے ہیں اور پھر وہی کام شروع ہوجاتا ہے جسے یہ چلہ کشی یا کسی ولی کامل کے سر تھوپنے کے لئے بکرے مینڈک کے ساتھ ساتھ نقدی بھی وصول کرتے رہتے ہیں جب اس سب سے دل کی تسلی نہیں ہوتی تو ان کی نگاہ و نفس میں حرام کی کمائی اپنی تسکین کے لئے وہ سب کر گزرتے ہیں جو اسلام ہی نہیں بلکہ بقیہ ادیان میں بھی قابل نفرت ہی کہلایا جاتا ہے پر کیا کرئے ایسے بد ضمیروں کا جو قوم کو تلوار کے سایہ میں دیکھ کر بھی اپنی نجاست بھری نگاہوں کی تسکین کے متمنی ہی رہتے ہیں۔

بات اس بوڑھے کی جس کے سبب کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ہنگامہ آرائی دیکھنے کو مل رہی ہے جب پہلی بار اس بوڑھے جس کا نام غنی شیخ بتایا جارہا ہے کو دیکھا تو میں نے ان دیکھ کر یہ سوچا کہ پتہ نہیں کیا بات ہوگی کیونکہ اکثر ایسی بیہودگیوں سے بچا ہی رہنا اپنی عادت بنی ہوئی ہے پر ماتھا تب ٹھنکا جب یہ سنا کہ موصوف مسجد کے خطیب اور امام بھی ہیں یہ سن کر حیرت کے ساتھ اس کی تلاش کی تو جو دیکھا بس یہ دل میں آیا کہ  اس قوم کا اب کیا ہوگا جس کا رہبر اس قدر بد زبان اور دریدہ دہن ہو میرے لیے اول یہ تصور ہی عبث تھا کہ ایسا بد زبان شخص امام ہے اور ماتم کرنے کو جی چاہا جب اس کے سامنے بیٹھے لوگ مسکرا کر اس کی باتیں سن رہے تھے لفظ فقیری پر موصوف گفتگو کر رہے تھے شاید تصور دے رہے ہوں کہ موصوف فقیر قسم کے آدمی ہیں چلے اس فقیر لفظ کو تصوف کی نظر سے سمجھیں

تصوف میں ایک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو نفسی خواہشات کی بجائے صرف خدا کی رضاکا طالب اور محتاج ہو۔ فقیر مسلمان صوفیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی کی بجائے صرف اللہ کے سامنے اپنا سر جھکایا۔ فقیر لوگ اکثر غریب ہوتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت خدا کے ذکر میں گزارتے ہیں البتہ ان کے مریدوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے پچھلے ادوار میں بادشاہان وقت ان کے در کی سلامی دیتے تھے۔

یہ لفظ کتاب و سنت و فقہ کی کتب میں بھی استعمال ہوتا ہے جہاں اس کی اپنی افادیت اور معنی الگ ہیں پر المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر تبصروں کو دیکھیں اس لفظ پر تو اس کا حلیہ بگاڑا گیا ہے  جبکہ اس پر توجہ ہی نہ دی گئی کہ موصوف ایک فتنہ گر ہیں نہ کہ کوئی داعیانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔

جناب جو کہ پیشہ سے ایک خطیب و امام ہیں  امام کے اوصاف میں جہاں کتاب و سنت کا عالم ہونا اہم ہے وہیں اس کا کردار و گفتار بھی نیک اور پاکیزہ ہونا لازمی ہے اب جب امام ان اوصاف حمیدہ کے ساتھ ساتھ ہی کتاب و سنت سے بے بہرہ ہو تو اس صورت میں خطا ان کی بھی ہے جو انہیں سر کا تاج بنا کر رکھتے ہیں  نہ صرف کسی جاہل ملا کی ہی یہ ایک ایسا حساس اور نازک کام ہے جہاں علم و عمل دونوں میں یکسانیت لازمی ہے پر کیا کرے کہ جب لوگ شعوری طور پر بے حسی اور فکری سطح پر زوال کا شکار ہوگئے ہوں تو پھر ایسے حادثات ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ہم یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں ہے بس ہنسی مذاق ہورہا تھا میرے پیار و کیا ہنسی مذاق کے لئے لازمی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو ہی تختہ مشق بنایا جائے

نہیں بلکہ یہ ہماری دین و ایمان کے تئیں بے حسی و بے توجہی

کا ثبوت ہے کہ اب مسخرے ہمارے امام بنے ہوئے ہیں مجھے یاد آرہا ہے کہ تاریخ اسلامی میں اس کا شکار پہلی بار سنت صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں ہوئی جب حشیش بھنگ کا استعمال کرنے والے افراد کو پہنچی شخصیت کیا جارہا تھا  جب ایسے ہی فتنے آئے روز اٹھا کرتے تھے  جب حکومت کو اس کی خبر ہوئی تو اس کا تدارک کیا گیا اور یہ فتنہ اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے ساتھ فنا ہوگیا جبکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ علی الاعلان اسلامی تعلیمات کا مذاق کا مذاق بنایا جاتا ہے اور ہم مسکرا کر شکریہ ادا کر دیتے ہیں

فکری دیوالیہ پن کے شکار لوگ کبھی بحیثیت ملت کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس کی کوئی نظیر آج تک جہاں میں مل سکتی ہے کہ کوئی قوم فکری دیوالیہ پن کی شکار ہوکر کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکی ہو اقوام جہاں میں وہی پنپتی ہیں جن کی فکر بلند ہو جن کے حوصلے بلند ہوں جو مسخرون کی ماتحت رہ کر نہیں جیتی بلکہ بلند کردار بلند افکار رکھنے والوں کا استقبال کیا کرتی ہیں

جہاں تک مجھ سا کم علم سمجھتا ہے ایسے افراد کو توبہ کرنی چاہئے اور ان کا حق باطل ہے کہ وہ خطابت کا فریضہ انجام دیں نہ ہی ان کی اقتداء  صحیح ہے جو عقل و خرد سے بے بہرہ اور پاکیزہ اخلاق و اوصاف سے عاری ہوں

چلتے چلتے

سوشل میڈیا پر جو لوگ متحرک ہیں اسلام کے نطریہ رحمت کی آبیاری کے لیئے ان کے لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ ہر چیز کو عام کریں بلکہ بہتر ہے ایسے باتوں ایسے بچا جائے جن کے سبب اسلامی تعلیمات مجروح ہورہی ہوں اور نہ کہ ایسے افراد کو قابل توجہ سمجھتا جائے جو اسلامی تعلیمات کے برعکس کسی اور نحوست کے ساتھ جینے کی قسم کھائے ہوئے ہوں یہ کوئی خدمت دین نہیں ہے بلکہ صرف رزالت ہی رزالت ہے ارباب علم اس پر اپنی نگاہیں جمائے رکھیں یہ ہنسی مذاق نہیں ہے بلکہ ایک ایسا ستم ہے کہ گر اس پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو کوئی پوچھنے والا بھی نہ رہے گا جب تک یہ ستم ظریفی کی مصیبت اپنی تمام سیاہ کاریوں کے ساتھ بام عروج پر ہوگئی  اور پھر ہمارے لئے رحمتوں کے دروازے بند ہوجائیں گئے

آئے قوم تجھے کیا ہوا

تیری داستان ہی ہے لٹ رہی

 

آئے قوم تجھے کیا کہوں

تونے رہزنوں کو ہے خادم قوم بنا دیا

 

آئے قوم تیری سوچوں کا معیار کیا ہوا

کہ تجھے منچلوں نے تباہ کیا

 

آئے قوم تیری فکر کا یہ زوال کیا ہوا

کہ تونے محراب و منبر گرا دیا

 

آئے قوم تیری کیا بنے گا

کہ تیرا رہنما کوئی اب نہیں

 

آئے قوم للہ اپنا تعلق اہل بصیرت سے جوڑ

فسانہ گروں کے طلسم سے نکل جا