اے کاش ‎وہ پرندہ ہوتی

وہ آج کئی دنوں بعد صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے پارک میں آئی تھی۔اسے نہ جانے کیوں یہ وقت بے حد پسند تھا ۔ شاید اسلیے کہ شدید گرمیوں میں بھی اس وقت نسبتا گرمی کی شدت کم ہوتی تھی اور موسم سہانا لگتا تھا۔

آج بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ہلکی ہلکی سی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو اسے بھلی معلوم ہوتی۔بچے بھی اس وقت خوش تھے اور سائیکل چلا رہے تھے۔جبکہ وہ آہستہ قدموں کے ساتھ چہل قدمی کر رہی تھی۔اپنے آس پاس نظر دوڑائی تو اکا دفا افراد ہاتھوں میں دودھ یا ڈبل روٹی لیے اپنے گھروں کی طرف جاتے نظر آئے تو کوئی گاڑی صاف کرنے والا اپنے مالک کی گاڑی کو چمکاتا بھی تھوڑے فاصلہ پر موجود تھا۔اسی چہل قدمی کے دوران اسے ایک بینچ نظر آئی تو وہ بیٹھ گئی جبکہ اس کے بچے بھی سائیکل کو چھوڑ کر بھاگ دوڑ کرنے لگے تھے۔

وہ اپنے اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی کہ اس کے کانوں میں پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دی۔اس نے نظریں دوڑائیں تو قریب کے درخت پر ایک گھونسلہ تھا۔کہ جس میں سے چڑا  اور  چڑیا کی آوازیں آرہی تھیں۔ابھی چند لمحے  ہی گزرے ہوں گے کہ وہ دونوں اُڑ گئے جبکہ وقفہ وقفہ کے بعد آوازیں آنا جاری تھیں جو کہ اس بات کی نشاندہی کر رہی تھیں کہ بچے ابھی بھی اس گھونسلہ میں موجود ہیں۔

اب اُس نے اپنی توجہ ان پرندوں کی طرف سے ہٹانا چاہی اور دوسری طرف منہ کیا تو وہاں کوئل نظر آئی  جو مٹی کے پیالے میں سے پانی پی رہی تھی۔اور ساتھ ہی دوسرے رکھے برتن میں سے دانہ چُگ لیتی تھی۔

وہ انھیں کافی دیر تک غور سے دیکھتی رہی۔حالانکہ اسے پرندوں اور جانوروں سے کوئی  زیادہ دلچسپی نہ تھی اور کبھی اسنے پالے بھی نہ تھے لیکن آج نہ جانے کیوں اسے یہ پرندے بے حد اچھے لگ رہے تھے۔کہ اتنے میں اس کے بچے آئے اور کہنے لگے امی بھوک لگ رہی ہے۔ناشتہ دیں۔

یہ سننا تھا کہ اس نے پھر اپنی نظر ان پرندوں پر دوڑائیں  تو یہ پرندے بد ستور دانہ چُگ رہے تھے۔اپنا پیٹ بھر رہے تھے۔وہ سوچنے لگی کہ ان کے کتنے مزے ہیں نا کہ انھیں پکانا بھی نہی پڑتا۔۔۔۔انھیں فکر بھی نہی ہوتی کہ آج کھانے میں چاول کے دانے ملیں گے یا باجرہ۔۔۔۔۔اور انھیں اس بات کی بھی ٹینشن نہی ہوتی کہ پتہ نہیں اتنا ملے گا کہ پورا ہوجائے یا کم پڑ جائے ۔

یہ تو بس اللہ توکل پر نکل جاتے ہیں اپنے گھروں سے اور خدا انھیں بھی رزق فراہم کر دیتا ہے۔بھوکے تو یہ بھی نہی رہتے۔وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ پھر درخت پر سے چڑیا کے بچوں کی آواز آئی اور پھر اس نے دل میں کہا کہ دیکھو نسل بھی ان کی بڑھ رہی ہے۔رہنے کے لیے ان کے پاس ٹھکانہ بھی ہے۔یہی تو بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔اور یہ تو خوش بھی ہیں۔ہواؤں میں اُڑ بھی رہے ہیں۔قدرت کے قانون کے مطابق دن کی روشنی نکلتے ہی جاگ جاتے ہیں اور اندھیرا چھاتے سو جاتے ہیں۔اور زندگی تو ان کی بھی رواں دواں ہے۔یہ تو کرونا کے وقت میں بھی آزاد تھے ۔نہ صرف آزاد فضا میں اُڑ رہے تھے بلکہ رزق کی فکر سے بھی آزاد تھے اور انھیں اس وقت بھی رزق مل رہا تھا۔

اور اس کا اس وقت دل چاہا کہ کاش وہ پرندہ ہوتی۔

تمام فکروں سے آزاد۔خوشیاں حاصل کرتی پرندہ۔

اس کا دل چاہا کہ ہاں کاش وہ پرندہ ہوتی کہ جسے “کل “کی فکر نہ ہوتی۔

اور اس کا دل چاہا کہ ہاں کاش وہ پرندہ ہوتی کہ جسے “حساب “بھی نہ دینا پڑتا۔

اور اس کا دل چاہا کہ ہاں کاش وہ پرندہ ہوتی کہ قیامت کی گھڑی کی سختیوں سے بھی نہ گزرنا پڑتا ۔