ترقی ہمیں کھا گئی

انسان کی ترقی کا سفر بڑا ہی دلچسپ اور لمبے زمانے کا حاصل ہے۔ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔جیسے جیسے انسان کا یہ سفر بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے ہی یہ  ایجادات کی ماں بھی ساتھ ساتھ ترقی کرتی چلی گئی۔اسی ماں نے انسان کو مہینوں میں پیدل طے ہونے والا سفر منٹوں،سیکنڈوں میں طے کرنا سیکھا اور انسانی عقل کو دنگ کر دیا۔ اگر آج پندرھویں صدی کا انسان زندہ ہو کر آ جائے تو حیرت سے دوبارہ مر سکتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں یہ وہ زمین اور سیارہ نہیں جس پر وہ پہلے پیدا ہوا تھا۔

جیسے جیسے سفر آگے بڑھا وہیں کاہلی ، آرام طلبی اور سستی بھی بڑھتی چلی گئی۔جہاں سفر میں تیزی آئی وہاں انسانی سوچ اور گفتار کی تنزلی بھی ہوئی۔ جہاں گھنٹوں والا کام منٹوں میں ہونے لگا وہاں وقت کی کمی کا رونا بھی رویا جانے لگا۔

جہاں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اناج کی پیداوار میں اضافہ ہوا وہاں بھوک اور افلاس نے بھی ڈیرے ڈال لیے۔

آج بھی کسی گاؤں میں چلے جائیں تو سادہ لوح لوگ آپ کو یہی کہتے ہوئے سنائی دیں گے ”کمپوٹر دور اے لالا، بے ایمانی کوئی نہیں کرسکدا“ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ترقی کا سفر آگے بڑھا دولت کے حصول کا لالچ بھی پروان چڑھا۔ بےایمانی اور فراڈ کے نئے نئے طریقے بھی دریافت ہوئے کیونکہ ضرورت ایجادکی ماں ہے !

جنگ وجدل کا عادی انسان آج جدید آلات اور ادویات کے ذریعے ایک دوسرے کا گلہ گھونٹنے میں مصروف ہے۔

جہاں انسان کا ماضی داغدار ہے وہاں حال بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں۔

دور جہالت میں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور اب جدید آلات سے پہلے ہی معلوم کر لیا جاتا ہے۔  اگر بیٹا پیدا ہوا تو ٹھیک ہے وگرنہ abortion کروا دیا جاتاہے اور اس طرح ننی جان کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔

تہذیب وثقافت کا علم دار آج عالمی برادری کے قانون کا پرچار چاہتا ہے۔

ہماری تہذیب تھی، ہماری ثقافت تھی، ہمارے رسم و رواج تھے، ہماری محفلیں تھیں۔ لیکن یہ ترقی کا سفر سب کچھ نگل گیا

 اب عالمی تہذیب(سیکولرازم)، عالمی ثقافت(لبرل ازم)، ٹی وی اور موبائل ہماری محفل ٹھہرے۔سوشل میڈیا کے دوست وہی دکھ درد کے ساتھی ہیں اور اپنے دوست اپنی طرح خود سے بیگانے۔