منتر میں پڑھوں‎

چلو بھولے تم بھولے تھے یا نہیں مگر کم از کم تمھیں ان لوگوں کے حق میں تو بھولے ہی ثابت ہوئے جن کے ایما پر تم لوگوں کو آگ میں بھون ڈالتے اور گولیوں سے چھلنی کردیتے تھے۔

چریا تم بھی اب سوچتے ہوگے کہ تمام تر شقی القلبی کے باوجود تم نرے ہی چریا رہے دیکھو کچھ نہ کچھ تو بات ہوگی ہی کہیں نہ کہیں تو تمھاری کوئی کمزوری کسی کے ہاتھ میں ہوگی جو تمھیں ان القابات سے نوازا گیا۔

اب تم نے سوچا ہوگا یا پتا نہیں اب بھی سوچا یا نہیں کہ وہ جو 259 افراد تم نے لوہے کی آگ میں پگھلا دیے کیسی کیسی آہیں ان کے دلوں سے نکلی ہوں گی؟

اور 259 افراد کے خاندان جن میں مائیں باپ بیویاں بچے بہنیں بھائی اور کتنے ہی منسلک اور بھی رشتے ہونگے دوست احباب ہوں گے جنھوں نے تمھارے غارت ہوجانے کی دعائیں مانگی ہوں گی۔مگر اس وقت تمھیں کیا دکھتا ہوگا؟اپنی خر مستیوں اور مضبوط ہاتھوں کی چھتری تلے تم خود کو بھولا اور چریا نہیں بلکہ ببر شیر سمجھ کر شیر کی خوب توہین کرتے ہوگے کیوں کہ تم جیسے لوگ تو بھیڑیا کہلانے کے لائق بھی نہیں تم مردار کھانے والے گدھ سے بھی بدتر ہو۔

کہو آج کیسا لگا آج جب 8 سال بعد بدترین فیصلہ آیا تو تمھیں وہ یاد نہ آئے جو تمھیں بھتہ خوری کے عوض معصوم لوگوں کی موت کا پروانہ دیتے رہے ہیں؟

کیا تم شکایت کر سکتے ہو؟

کیا تم شکایت نہیں کرسکتے؟

شاید تم کچھ بھی نہیں کر سکتے

پھر تم کیا کروگے؟

کسی کی چوڑیوں کی چھن چھن سے نکلی بدعا تمھیں دیر سے ہی سہی لے اڑی ہے

کسی کے گیسوئے ناز کی آہ تمھیں کھا گئ ہے

کوئ کلکاری تمھاری سزا کے نوشتے میں درج ہے

کسی ماں کی چیخ تمھارا نامہ اعمال بنی ہے

کسی دودھیا گلابی رنگ کی جھالر دار فراک کا معصوم روتا چہرہ جو اپنے بابا کو دیکھ کر مسکراتا تھا مگر تم نے اسے رلایا  آج تم سے انتقام بنا ہے۔

مگر تم سوچتے تو ہوگے کہ آخر ہمارے ہی لیے؟

وہ بچ گئے جو بانبی میں ہاتھ تمھارا ڈلواتے تھے اور منتر خود پڑھتے تھے۔

شاید تم سوچو کہ ان کا حساب تو دنیا کیا خدا نے بھی نہیں کیا؟

نہیں تم ایسا نہیں سوچنا

دنیا عدل سے خالی ہوسکتی ہے

عدالت بک سکتی ہے

جج ڈنڈی مار سکتا ہے

حکومت سودے بازی کر سکتی ہے

تعلقات کی بنیاد پر فیصلے کراوئے جا سکتے ہیں

بے شک دنیا میں تم جیسے بھولے اور چریے ہیں کفارہ ادا کرنے کےلیے

مگر تم نہیں سوچنا یہ بات کہ خدا چھوڑ دے گا انھیں

خدا کی عدالت پورا تولتی ہے وقت لگتا ہے مگر اندھیر نہیں ہوتا تمھیں خود اپنے بارے میں بھی کیا پتا ہوگا؟

مگر جب اس کے ترازو میں تولنے کا وقت آجائے تو کوئ اس کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا وہ بھی نہیں بچیں گے جو فی الحال بچتے نظر آرہے ہیں تم یقین رکھو وہ جس نے 259 افراد کی جانوں کا حساب رکھا ہے تمھارا بھی رکھے گا ان کی موت ان کے بھائ بندوں کے ہاتھ ہوگی جیسے کہ تمھاری پارٹی کا دستور ہوتا آیا ہے۔

اور یہ جو ہے اپنے لہجے کو بنا سنوار کے بولنے والا،منافق فیصل سبز واری جو بنتا ہے اہل زبان مگر ہے وہ بس چرب زبان ایک دن اس ڈھیٹ کی ڈھٹائ اپنی موت آپ مرجائے گی۔جو آج اپنی اسی چرب زبانی سے کہہ رہا ہے کہ ہم بے قصور تھے۔

 ایک دن اس کی لمبی زبان کھینچ لی جائے گی۔ویسے اس کی ڈھٹائ پر تم پر کیا گزری ؟کچھ بتانا۔

تم آج دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیے گئے ہو۔

بتاو کیسا لگا؟

یہ ڈرامہ کیسا لگا؟

یہ تماشا کیسا لگا؟

اس سانحے میں براہ راست ملوث لوگ بری ہوئے تو تم نے کہانی میں خود کو کہاں پایا؟

دنیا حیران ہو سکتی ہے

لوگ چیخ بھی رہے ہیں

اور وہ جو بظاہر نجات پاگئے ہیں مٹھائ کھائیں گے

مگر یہی وہ لمحہ ہے کہ مجھے یقین ہوا جاتا ہے کہ ان کا انجام ابھی اس لیے نہیں ہوا کہ وہ شدید عبرت ناک انجام کے حق دار ہیں

اور کبھی تو ان کا حساب ہوگا

مگر تم بتاو تمھیں کیسا لگا یہ فیصلہ سن کر؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

بھولے۔

چریے۔