کے الیکٹرک کے خلاف صرف جماعت اسلامی میدان میں 

ایک وقت تھا جب کراچی کو روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا، رات کی تاریکیاں ایک نئے صبح کی امید لیے آتا ہے لیکن کراچی کیلئے وہ رات بہت بھیانک ثابت ہوئی،جب کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (K.E.S.C) نام تبدیل ہوکر اسے کراچی الیکٹرک (K. Electric) کا نام دیا گیا جسکے بعد سے کراچی میں روشنیوں کا سورج آج تک طلوع نہ ہو سکا۔

کراچی میں اعلانیہ ہو یا غیر اعلانیہ، لوڈشیڈنگ پورے زور شور سے جاری ہے جبکہ گرمی کی ستائی عوام بے بس اور لاچار اپنی اپنی سیاسی جماعتوں، حکومتی نمائندوں کی طرف سے جھوٹی تسلیوں سے تنگ نظر آتی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں بے بس یا بات کچھ اور؟؟

لگتا ہےکے الیکٹرک کے جن کا چراغ کہیں کھو گیا ہے اور پچھلی حکومتیں یعنی زرداری اور نواز شریف بھی اس چراغ کو ڈھونڈنے سے بالآخر قاصر رہے تھے اور اب تو مجھے بھی وزیر اعظم عمران خان کی طرح شک ہونے لگا ہے کہ آیا یہ چراغ واقعی گم ہوا ہے یا پھر گزشتہ حکومتوں نے چھپادیا ہے لیکن بہرحال کراچی کی عوام حالت زار میں ہے.

شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں 10سے 12 گھنٹے

نارمل جبکہ 18 سے 20 گھنٹے کی بھی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے یہی نہیں ساتھ ہی اوور بلنگ، اور میٹر ٹیمپرنگ کے نام پر بے تحاشہ پیسہ عوام سے بٹورا جارہا ہے ۔

جس پر کراچی کی واحد پارٹی جماعت اسلامی سراپا احتجاج ہے ہر گلی ہر کوچہ میں انجینئر حافظ نعیم الرحمان کراچی کی عوام کا مقدمہ لڑرہے ہیں ۔

  1. Electric کے ظلم کے خلاف متعدد بار احتجاج، جلسے، وزیر اعلیٰ ہاوس کا گہراؤ، گورنر ہاؤس کے باہر احتجاجی دھرنے دیے گئے اور اب تو یہ ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

بے اختیار ہوتے ہوئے بھی ہر ظالم کو للکارا، ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، کے الیکٹرک کی زیادتیاں ہوں یا پھر بارش کی تباہ کاریاں، ڈینگی اور کورونا کی آفت ہو یا پھر شہریوں کے شناختی کارڈز کا مسئلہ،شاید اب کراچی کی عوام کیلئے سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو خدمت کو پنا شعار بنائے بلا امتیاز رنگ و نسل وسیع  ترکر رہی ہے۔

واضح فرق:

ایک طرف گورنر سندھ، صدر پاکستان، اور ایم کیو ایم کے وزراء کراچی سے ہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کا حصہ بھی ہیں، اور ساتھ ہی پیپلزپارٹی کی سندھ میں صوبائی حکومت لیکن لوڈشیڈنگ کے ظلم کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، آخر ایسی بھی کیا مجبوری ہو سکتی ہے جو مزمتی بیان تک ہی  جاری نہیں کیا جاتا

اور دوسری جانب تن تنہا جماعت اسلامی ہے جو حکومت کا حصہ بھی نہیں اور جسکا سندھ اسمبلی میں صرف ایک نمائندہ ہے سید عبدالرشید جو پیپلز پارٹی کے گھڑ لیاری سے منتخب ہوا، جو پیپلز پارٹی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے

شہر کراچی کے بیشتر تعلیمی ادارے بالخصوص گورنمنٹ اسکول، کالجز جہاں ویسے بھی بیشتر  سہولیات کا فقدان رہتا ہے اور سونے پہ سہاگہ بد ترین لوڈشیڈنگ نے اسٹوڈنٹس کو کافی تکلیف سے دوچار کیا ہے۔طلبہ کا کہنا ہے کہ بد ترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے انکی تعلیم کو بہت زیادہ نقصان پہنچاہے کیونکہ لوڈشیڈنگ کبھی تو پورے دن کی جاتی ہے اور کبھی پوری رات۔

جس طرح تعلیمی ادارے متاثر ہیں اس سے کہیں گناہ زیادہ ہمارے اسپتال، کاروباری مراکز اور فرداً فرداً ہر کوئی اس سے متاثر نظر آتا ہے۔

ہر طرف جنریٹروں اور یو پی ایس کی بھرمار ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف یہی ایک کاروبار رہ گیا ہے جسکی چاندی ہوگئی ہے جنریٹروں کے استعمال میں اضافہ سے پیٹرول اور سوئی گیس کی بندش میں اضافہ اور اسکے ساتھ ہی فیسوں، دوسری اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا سبب بن رہی ہے بقولِ دانشور اوپر کا (اضافی) خرچہ ہمیشہ اضافی رقم سے ہی وصول کیا جاتا ہے

مجھے تو سمجھ آگئی کہ جنہیں ہم(کراچی کی عوام) کھرا سمجھ رہے تھے وہ تو کوٹہ سکہ نکلے

نہ خداہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے