بورڈم

“Mama I m getting  bored”

“ما ما میں بور ہو گیا ہوں”

اسطرح کے الفاظ ہم مائیں اور دیگر لوگ اکثر ہی سنتے ہیں اور ان ہی عوامل کی وجہ سے آج نت نئی اصطلاحات وجود میں آئیں جیسے

آج سے پندرہ بیس سال پہلے اسکرین ایڈکشن اور اسکرین  ٹائم کی اصطلاحات ناپید تھیں۔۔بورڈم کا لفظ  شازونادر سننے  کو ملتا۔۔۔بچے فارغ اوقات  کو صرف کرنا جانتے تھے۔۔بے شمار ان ڈور اور آؤٹ  ڈور ایکٹیویٹیز ۔۔مشاغل ۔۔کتاب دوستی….. کبھی  والدین  کے لئے بورڈم پریشان کن مسئلہ نہیں رہا

آج کی مائیں اکثر  و بیشتر اپنے بچوں سے بورڈم  اور اس سے ملتے جلتے جملے ضرور  سنتی ہیں۔۔۔اور بچوں  کے مستقل  مسئلوں  میں  شامل ایک یہ مسئلہ بھی ہے۔۔۔اسکرین ٹائم اٹریکشن  اور جدید  گیجٹس پر ہر ایک کی زندگی اتنا  انحصار  کرنے  لگی ہے کہ اس کے بغیر  زندگی  کا تصور  نا مکمل ہے۔۔ میں موجودہ دور میں ٹیکنالوجی  کے استعمال  کے بالکل مخالف نہیں بلکہ ان گیجٹس کے استعمال کو بھی ہم مؤثر بنا سکتے ہیں لیکن میں  توجہ اس طرف دلانا چاہتی ہوں  کہ اس “بورڈم “کے عوامل  اور اثرات  کیا ہیں۔۔۔

آج کی مائیں  جہاں  بورڈم سے پریشان ہیں وہیں بچے کو بورڈم سے بچاؤ کو اپنی اولین  ذمہ داری بھی سمجھتی ہیں اور  ہمہ وقت ایسی ایکٹیویٹیز مہیا  کرنے میں  کوشاں  ہیں کہ بچہ بورڈم کا شکار نہ ہو۔۔

دوسری طرف مائیں  ایسی بھی ہیں جو سمجھتی ہیں  کہ بورڈم  کسی حد تک بچے کو تخلیقی صلاحتیوں  کی طرف راغب کرتی ہے۔۔۔بچوں  کی نفسیات کے ماہرین  کہتے ہیں  کہ بچے اس وقت بورڈم کا شکار ہوتے ہیں  جب ان کا اپنے ارد گرد ماحول۔انسانوں، رویوں اور مزاجوں  سے انٹرایکشن کم سے کم ہو جاتا ہے۔۔جس کے نتیجے میں  لاشعور میں ان تمام ضروری عناصر  جو تربیت  کے عمل کے لئے کسی حد تک ضروری ہیں وابستگی کم ہو جاتی ہے۔۔جو بورڈم اور لا تعلقی  کے طور پہ ظاہر ہوتی ہے۔۔۔دوسری ریسرچ کے مطابق یہ ثابت  ہوا کہ بورڈم  اصل میں  بچوں  کی تخلیقی اور غورو تدبر  کرنے  کی صلاحیت  کو ابھارتا  ہے۔۔

نہ صرف  مائیں  بلکہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ بچوں  کے لئے بورڈم سے نجات کے لئے گیجٹس  کی صورت میں متبادل مہیا کرنے کے بجائے بچوں کے لئے فطری صحت افزاء مواقع فراہم کریں  جس سے خود اپنی ذات  کے ساتھ۔۔رب تعالی کے ساتھ۔۔رشتوں کے ساتھ ۔۔ماحول  کے ساتھ کنیکشن  مضبوط  ہو  ۔۔۔اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ  صحت افزاء کمیونیکیشن اور  مطالعہ کتب جو ان کی سوچنے سمجھنے ۔۔اور تدبر کی صلاحیت  کو ابھارے۔۔۔ اور اگر مان لیجئے کہ بچے اسکرین اڈکٹ ہو ہی گئے ہیں تو اس صورت میں بھی ہم اس سے نہ صرف فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ بچوں کو اسکرین کے ذریعے ہی نارمل زندگی میں لاسکتے ہے لیکن اس کے لئے تھوڑی سی محنت، کنسنٹریشن اور کنسسٹنسی کی ضرورت ہے ہم ماؤں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو اسکرین پر بے تکے بے سروپا عریانی اور لادینیت سے بھرپور کارٹونز اور پروگرامات کی بجائے دین سے متعلق انبیاء علیہ السلام صحابہ اکرام کے واقعات پر مبنی 3D سیریز دکھانے کی تلقین کریں اور اس کا بہترین آئیڈیا یہ ہے کہ ہم خود ان پروگراموں کو دیکھیں اور ان کے یونیک اور اچھوتے پہلو اجاگر کریں۔ دوسرا یہ کہ آج کے فکشن اور تخیلاتی سپر ہیروز کی اصلیت بتائ جائے کہ ان کا کوئ وجود نہیں جبکہ ایمانی دولت سے بھرپور سچے اور نڈر مسلمان کس طرح بدر و حنین میں دس دس کا مقابلہ کیا کرتے تھے اس طرح ہم بتدریج بچوں کو کتاب اور اصل دنیا تک رسائ دے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ ان سب اور ان جیسی اور ایکٹیویٹیز

 ضرور فائدہ مند ثابت ہو گی۔۔ان شاءاللہ