ایک امید بر آنا یہ کراچی کے عوام کا نکلنا‎

27 ستمبر  حقوق کراچی مارچ کے نام پر جماعت اسلامی کی طرف سے ریلی کا اہتمام کیا گیا۔اس ریلی کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھیں۔اس میں شرکت کرنے والی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں ،بھائیوں،باپ اور بیٹیوں کا جذبہ دیکھا۔اس میں گونجتے نعرے سُنے۔جوش و جذبوں سے بھرپور تقریریں بھی سنیں۔تو ایک امید کی کرن نظر آئی۔محسوس ہوا کہ کراچی میں صرف اندھیرا نہیں اجالا بھی ہے۔اس وقت لگا کہ ہاں

اے جذبہ دل گر میں چاہوں

ہر چیز مقابل آجائے

منزل کے لیےدوگام چلوں

اور سامنے منزل آجائے

کیونکہ اس ریلی میں شرکت کرنے والے افراد میں وہ چہرے بہ کثرت موجود تھے جو حالیہ بارشوں میں اپنی سی کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئےدوسروں کی مدد کر رہے تھے۔اور ان میں وہ افراد بھی تھے جو کے الیکٹرک کی بد معاشی کے دوران بھی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔اور بحریہ ٹاؤن والوں کو بھی ان کے پلاٹس  دلانے میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔اور وہی افراد جب آج حقوق حاصل کرنے کا مطالبہ کرنے کےلیے سڑکوں پر نظرآئےتو یقین ہوچلا کہ ہاں یہ اپنے حق لے کر رہیں گے۔یہ نا امید نہیں ہیں ۔یہ پُر عزم ہیں۔یہ کراچی کو روشنیوں کا شہر پھر سے بنانے کے لیے اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔یہ سانحۂ بلدیہ ٹاؤن ہو یا کے الیکٹرک کی وجہ سے ختم ہونے والی جانیں ہو یا پھر  چائنہ کٹنگ کے نتیجہ میں ڈوبتے ہوئے شہر میں ان گنت افراد کا نالوں میں بہ کر لاپتہ ہوجانا ہو سب کو انصاف دلا کر رہیں گے۔

اور یہ کراچی کے عوام کا سڑکوں پر نکلنا ،اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ہاں کراچی کے عوام کو ان کے حقوق مل کر رہیں گے۔اور ہم پُر امید ہیں کیونکہ:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے

ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی