اللہ کا راستہ

زندگی میں کم از کم ایک بار ہر شخص کے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اللہ کے راستے پر چلا جائے، جیسے اُس نے بتایا ہے ویسے زندگی گزاری جائے، اپنی مرضی پر اُس کی چاہت کو ترجیح دی جائے، اپنے نظریات کو اسلامی عقائد کے تابع کیا جائے اور اپنی عقل کو وحی کے کنٹرول میں رکھا جائے۔

اللہ کے راستے کی طرف چلنے کی شروعات بہت آسان ہے، کوئی بھی شخص کسی بھی گھڑی یہ فیصلہ کر لے کہ اسے نفع بخش بن کر زندگی گزارنی ہے یعنی کہ مخلوقِ خدا کو صرف نفع پہنچانا ہے اور نفس کی بجائے شریعت کی پیروی کرنی ہے تو وہ اِس راستے پر چل پڑا۔ اور ایک وہ شخص ہے جو کہ نفع خور بن کر رہنا چاہتا ہے کہ پوری کائنات صرف اس کی خدمت، اس کے وژن میں لگ جائے اور ہر طرح ہر جگہ سے صرف اسی کو فائدہ ملے، اس کی یہ ”میں” بالآخر اِس کا خدا بن جاتی ہے اور ایسا شخص جلد یا بدیر تباہ ہو جاتا ہے۔

کچھ لوگوں کی ”میں” اور نفع خوری کی عادت انہیں اس راستے پر چلنے ہی نہیں دیتی اور وہ بہت شروع سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کم از کم ایک آسانی تو ہوتی ہے کہ کوئی ابہام نہیں رہتا۔ یہ دنیا دار لوگ دنیا بنانے میں لگے رہتے ہیں اور کبھی کبھار خوب بنا بھی لیتے ہیں مگر آخرت کا توشہ کوئی خاص جمع نہیں کر پاتے۔

کچھ لوگ ثابت قدمی سے، سر جھکائے چلتے رہتے ہیں اور بالآخر یونہی چلتے چلتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ اس راستے کی کوئی منزل نہیں ہوتی، منزل تو اختتام کا نام ہے۔ تکمیل کا استعارہ ہے، بے وقوفوں کو ملتی ہے، عقلمند آدمی ہمیشہ چلتا رہتا ہے ، دنیا کو پیچھے چھوڑتا ہے تو بڑے بڑے دروازوں سے ہوتا ہوا کائنات کے سفر پر نکلتا ہے اور پھر خدائے باری تعالیٰ کی صفات سے ہوتا ہوا ذات تک پہنچتا ہے اور اس میں سفر کرتا ہے۔ انسانی ذہن اور ہمت کے پر جلتے ہیں، کتنا آگے جائے گا مگر یہ مبارک سفر کچھ نہ کچھ قریب کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ بس آپ کوشش کریں کہ ان مسافروں کو پہچانیں، ان کے آس پاس رہیں۔ یہ جاتے جاتے ساتھ چلنے والوں کو راستے کی باتیں بتا دیا کرتے ہیں اور اس سے آپ اور آپ جیسے ہزاروں کا بھلا ہوتا ہے۔

تیسری قسم کے لوگ بڑی مشکل میں ہیں، یہ دعوئوں کی پوشاک پہن کر اس سفر میں نکلتے یں، اپنی ”میں” کو وضع کے صندوق میں رکھتے ہیں، اپنی انا کو عاجزی کے جزدان میں لپیٹتے ہیں اور اپنے نفس کو بندگی کا نام دے کر قافلے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ منزل، اختتام اور تکمیل تو دور کی باتیں ہیں یہ راستہ خود اتنا دانا ہے کہ مسافروں کے پاؤں کی چھاپ سے ہی انہیں پرکھ لیتا ہے کہ کون خالی چل رہا ہے اور کس کے ساتھ سازوسامان ہے۔

قدرت کا اصول ہے کہ دعویٰ دلیل مانگتا ہے، جتنا بڑا دعویٰ اتنی بڑی دلیل، آدمی کبھی دعویٰ نہ کرے، نہ نیکی کا، نہ برائی کا، نہ ہی کسی منصوبے یا بڑے کام کا کیونکہ جب قدرت دلیل لینے آئے گی تو وہ دے نہیں پائیگا۔ آپ پانی کے نیچے آگ لگا دیں اور کل پانی یہ دعویٰ کرے کہ میرے میں گرم ہونے یا کر دینے کی صلاحیت ہے تو یہ تو جھوٹ ہو گا۔ اصل تو آگ ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ کی دی ہوئی توفیق نکال دیں تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ یہ قدرت ہے جو آپ کی چھوٹی موٹی ناچیز نیکیوں کو کسی کی دعا کے طفیل لوگوں میں قبولیت بخش دیتی ہے اور آپ اپنے آپ کو مسیحا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

اِس سفر میں جو پہلا وار ہوتا ہے وہ شہرت کا ہے کہ صندوق سے ”میں” نکل کر باہر آ جائے، آپ کے کام کو پذیرائی، واہ واہ اور جے جے کار ملے. ٹی وی انٹرویوز، بین الاقوامی اسفار اور کانفرنسز اور مزے کی بات سب اللہ اور مخلوق خدا کے نام پر، ایک بڑی تعداد اس کھائی میں گِر کر یہاں سے ایگزٹ لے لیتی ہے۔، لوگ اللہ کے نام پر آپ کے منصوبے میں پیسہ لگاتے ہیں اور آپ اسے اپنی گاڑی کے پٹرول سے لے کر جہازوں کے ٹکٹ ، ہوٹل کی بکنگ اور بچوں کی پڑھائی تک پر لگا دیتے ہیں کہ آپ نے تو اپنی زندگی اس کاز یا مقصد کے لئے وقف کر دی ہوتی ہے۔ مزید چندہ اکٹھا کرنے کی دھن کہ پراجیکٹ مزید بڑھے، آپ زکوٰة لینے سے لے کر، میڈیا پارٹنر شپ اور گانوں کے شو سے لے کر نچوانے تک سب کر گزرتے ہیں۔ ناچ بسنتی ناچ پیسہ ملے گا اور وہ بھی اللہ کے نام پر ملے گا۔ کیا زبردست بزنس پلان ہے۔ بھئی کیا کہنے۔

دولت اِس راستے کا دوسرا ایگزٹ ہے، قدرت آپ پر دنیا کھول دیتی ہے کہ دیکھیں یہ سب کچھ اس دنیا کے لئے تھا یا واقعی ملن کی چاہ ہے۔ آدمی ترقی کرتا کرتا کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی عقل، منصوبہ بندی، وژن اور حکمت عملی کا نتجہ ہے۔ وہ لوگوں کو پڑھانے لگتا ہے کہ کامیاب زندگی کیا ہے اور کیسے گزاریں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو حقیقاً کامیاب تھے کہتے ہوئے گزر گئے کہ کاش میں تنکا ہوتا کہ حساب نہ لیا جائے، کاش برابر سراپر چھوٹ جائیں، کاش مجھے میری ماں نے جنا ہی نہ ہوتا اور اگر اللہ کی رحمت و مغفرت نہ ہوتی تو جہنم مقدر تھی۔ اس کھائی میں بھی بہت سے گرے۔ کچھ موٹی ویشنل سپیکر بنے تو کچھ ساہوکار، کسی نے ٹریننگ کمپنی کھولی تو کسی نے کتاب لکھ دی، کوئی زیرو سے ہیرو بنا تو کوئی برانڈ امبسڈر۔ بڑا مشکل ہوتا ہے ایسے لوگوں کو سمجھانا کہ حضور والا ایگزیٹ لے لی ہے پھر سے شروع کریں۔

طاقت اِس سفر کا اگلا ایگزیٹ ہے قدرت آپ کو اب تک کی ثابت قدمی کا بھرپور معاوضہ دیتی ہے اور آپ کو کوئی عہدہ مل جاتا ہے، کہیں کے گدّی نشین لگ جاتے ہیں، یا کوئی خلافت مل جاتی ہے۔ جو چاہے کریں، نیکی کا ڈھول بھی، لوگوں کا مجمع بھی اور دنیاداروں پر حکم بھی۔ اب بندہ اللہ اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو بالائے طارق رکھ کر عقل سے فیصلے کرتا ہے (وہ عقل جو وحی کے تابع نہیں) ان لوگوں کی مرضی سے فیصلے کرتا یا کرواتا ہے جو پہلے سے ایگزٹ لے چکے ہوتے ہیں یا سفر میں کبھی ہوتے ہی نہیں۔ یہ شخص اب خود بندوں اور انکے رب کے درمیان آجاتا ہے، لوگ اسکے پاس آتے ہیں کے وہ انہیں اللہ سے ملائے گا وہ خود کٹ چکا ہوتا ہے تو کسی کو کیسے ملا سکتا ہے. اپنے رتبے اور عہدے کے نشے میں کچھ فیصلے اتفاقاً اچھے ہو گئے تو کچھ نے نسلوں کو تباہ کر دیا۔ ایسے لوگ اپنے ساتھ ہزاروں کو لے ڈوبتے ہیں۔ بے شک بندہ ہوتا ہے بندگی میں بھی کوئی شبہ نہیں مگر بندہ بھی اپنے نفس کا اور بندگی بھی اپنی مرضی کی۔

اب جب پیار سے کام نہ چلا تو قدرت مشکلوں میںڈال دیتی ہے کہ پرکھ مکمل ہو۔ آگ سے گزر کر کندن بن جاۓ۔ مشکلوں کے اس کھیل میں عجیب بات یہ ہے کہ ہر رائونڈ میں کامیابی پر انعام ملتا ہے، جتنی زیادہ آزمائشیں ، مصیبتیں، اتنا ہی زیادہ انعام و فضل۔

اس پڑاؤ میں پہلا حملہ حسد کا ہوتا ہے، بہت سے لوگ بغیر کسی وجہ کے آپ سے خواہ مخواہ جلنے لگتے ہیں۔ محسود ہونا کہ لوگ آپ سے حسد کریں خود نشانی ہے اللہ کے فضل کی۔ کچھ ہے تو جل رہے ہیں نا۔ حسد دراصل خدا کی تقسیم پر اعتراض کا نام ہے۔ اب بندہ کیا کرے۔ نہ ہی لوگوں سے کہہ سکے کہ بھائی حسد نہ کرو۔ اللہ کا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں۔ وہ دیئے جا رہا ہے تو میں کیا کروں، اُسے کہہ دوں کہ نہ دے؟

ہمارے ملک میں اللہ کے فضل کی زکوٰة ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کا جھوٹ، ظلم اور حسد برداشت کیا جائے اور یہ مون سون کی بارش کی طرح برستا ہے اور پھر فضل کی برسات بھی چپھر پھاڑ کے ہوتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جس شخص پر بھی اللہ کا فضل برس رہا ہوتا ہے اس کے حاسدین کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

شاید قدرت کو بھی ضد ہو جاتی ہے، کئے جاؤ حسد ہم اور دیں گے، چلے جاؤ چالیں، ہماری چال سب سے بھاری، لے آؤ ہاتھی ہم ابابیلیں بھیج دیں گے، بناؤ پہاڑوں میں گھر ہم ہوا سے حساب لیں گے، قتل کرو نامولود بچوں کو ہم تمہارے اپنے گھر میں ہی پال کر دکھائیں گے اور کرو خدائی کا دعویٰ ہم مچھر کو مسلط کر دیں گے۔ اللہ جب چاہئے رزق کھول دے جب چاہے بند کر دیئے، جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت، موت سے زندگی نکال دے، زندگی سے موت، رات سے دن، دن سے رات، وہ ضد کا بادشاہ ہے اس کی “کن” کے آگے کون بچتا ہے۔

– لوگ حسد کریں گے اور ان مسافروں پر اللہ کا فضل بڑھ جائے گا۔

– لوگ ظلم کریں گے اور ان کی دعائوں میں اثر آ جائے گا۔ جب بھی کوئی مستجاب الدعوات دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ مظلوم ہے۔ اللہ مجھے تکلیف پوھنچی ہے اور آپ بڑے ہی رحم کرنے والے ہیں۔

– لوگ دشمنی کریں گے قدرت عزت و تکریم بڑھادے گی۔

– لوگ وقت برباد کریں گے اور قدرت آپکے وقت میں برکت ڈال دے گی۔

– لوگ چاہیں گے کہ آپ بھوکے مریں اور قدرت رزق کھول دے گی۔

– لوگ کردار کشی کریں گے اور قدرت ستاری پر مصر۔

– لوگ تنہا کر دیں گے اور قدرت اپنے سے قریب تر کرتی چلی جاۓگی۔

– لوگ تکلیف پہنچائیں گے اور قدرت تہجد کی توفیق دے کر آنسو پونچھے گی۔

– آپ کا کوئی قریبی ساتھی جس پر آپ اندھا اعتماد کرتے ہیں آپ کو ضرور دھوکہ دے گا اور آپ کچھ نہیں کر سکیں گے.

لوگوں کی گالیاں اور طعنے سن کر یا تو آپ اچھے کام چھوڑ دیں گے یا آپ خاموشی سے کنارہ کش ہو کر اپنے کام جاری رکھیں گے۔ قدرت کبھی جان بوجھ کر کسی کو آپ پر مسلط کر دیتی ہے کہ صبر سے درجات میں بلندی ہو اور کوئی اونچا مقام مل سکے۔

میرا ایک دوست عبداللہ یہاں بھی عجیب کام کرتا ہے، وہ مغرور ہو جاتا ہے، کہتا ہے کہ جب بیٹا اپنے باپ کا مال ڈنکے کی چوٹ پر خرچ کر سکتا ہے تو میں اپنے رب کے فضل کو کیوں چھپاؤں؟ میں اللہ کے لئے غرور کرتا ہوں، پوچھ لیں ان سے جس نے پوچھنا ہے کہ مجھے کیوں دیا۔ میرے رب کا مال ہے، میررے اللہ کا فضل ہے اور میں اس پر خوش ہوں۔

بس کوششں کرکے ان مسافروں کو ڈھونڈ کر ان کے ساتھ ہو لیں۔ ان مسافروں کے مخالف گروپ کی ایک نشانی عرض کروں؟ ان لوگوں کی زندگی سے فوکس ختم ہو جاتا ہے۔ وہ یکسوئی کے ساتھ کوئی کام نہیں کر سکتے۔ نہ ڈھنک سے پڑھ سکتے ہیں نہ کوئی اورکام کر سکتے ہیں اور یہ بڑی بدنصیبی ہے۔

ایسے شخص سے کبھی پنگا نہ لیں جس کا خدا کے سوا کوئی نہ ہو۔ وہ جائے نماز بچھا کے بیٹھ گیا تو آپ کو کون بچائے گا؟ آپ کی لفاظی، مکاری اور چرب زبانی کی زد میں کسی دن کوئی اللہ والا آ گیا تو آہوں کے حصار میں آپ کی دعائیں راکھ کر دے گا۔

اللہ ہم سب کو اس سفر میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں