نکاح کو آسان بنائیے۔۔۔۔۔۔

گزشتہ ۱۲ ستمبر ۲۰۲۰ بروز ہفتہ برادر محترم جاوید علی کی بیٹی کا نکاح پڑھانے کا موقع ملا ،انھوں نے تقریباً 3 ہفتہ پہلے سے کہہ رکھا تھا ، درمیان میں کچھ کچھ وقفے سے یاد دہانی کراتے رہے۔

جاوید صاحب مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ، ان سے تعلق اس وقت سے ہے جب انھوں نے آج سے تقریباً 35 برس قبل ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ میں تصنیفی تربیت کا کورس کیا تھا _ ، میرے دہلی منتقل ہونے کے بعد اس تعلق میں مزید اضافہ ہوا، _ انھوں نے خواہش کی کہ میں نکاح پڑھانے کےساتھ مختصر تقریر بھی کروں۔

میں نے اپنی تقریر میں عرض کیا کہ مختلف متمدّن سماجوں میں خاندان کی تشکیل نکاح کے ذریعے ہوتی ہے ، لیکن افسوس کہ ان میں نکاح کے ساتھ خطیر مصارف وابستہ کردیے گئے ہیں،  کسی شخص کی دو تین لڑکیاں ہوں تو ان کی پیدائش کے وقت سے وہ ان کے نکاح کے وقت کے لیے پیسے بٹورنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔افسوس کہ اس دوڑ میں مسلمان بھی پیچھے نہیں ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تو ایک وصف قرآن مجید میں یہ بیان کیا گیا ہے : ” ’’وہ لوگوں سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو انھوں نے خود پر لاد لیے تھے اور وہ بیڑیاں اور طوق کاٹتا ہے، جن میں انھوں نے خود کو جکڑ لیا تھا‘‘۔ _”

(الاعراف :157 )

لیکن افسوس کہ آپ کی امت نے اپنی مرضی سے دوبارہ خود کو رسوم و روایات کی بیڑیوں میں جکڑ لیا ہے اور بھاری بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں۔ خاص طور سے نکاح کے موقع پر منگنی ، جہیز ، تلک اور دیگر ناموں سے مُسرفانہ رسوم کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔

میں نے عرض کیا کہ اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے اور سادہ انداز میں اس کے انعقاد کی تاکید کی ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

’’تم میں جو بغیر جوڑے والے ہوں ان کے نکاح کراؤ _”‘‘(النور : 32)

اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : ” بہترین نکاح وہ ہے جو سہولت سے انجام پاجائے _” (صحیح ابن حبان : 4072 )

عہد نبوی میں اس کی بہت سی روشن مثالیں ملتی ہیں کہ غریب سے غریب لڑکے یا لڑکی کا نکاح بہت آسانی سے ہوگیا،  عورت چاہے مطلّقہ ہو یا بیوہ ، بہت آسانی سے اس کا نکاح ہوجاتا تھا۔ ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نوجوان یا دوشیزہ یا ادھیڑ عمر کے مرد یا عورت نے نکاح کا ارادہ کیا ہو اور مصارف فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح نہ ہوپایا ہو۔

میں نے عرض کیا کہ اصلاحِ معاشرہ اور نکاح آسان بنانے کے موضوع پر تقریریں ہوتی رہتی ہیں ، لیکن عمل کا جذبہ مفقود ہوتا ہے ،جو لوگ تقریریں کرتے ہیں اور دوسروں کو آسان نکاح پر ابھارتے ہیں ، وہ خود اپنے بیٹے یا بیٹی کے نکاح کے موقع پر مُسرفانہ رسوم سے باز نہیں آتے ، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آسان نکاح کے عملی نمونے زیادہ سے زیادہ پیش کیے جائیں ، تاکہ عام لوگوں میں ان کی نقل کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور مسلم معاشرےکو بے جا اور غیر شرعی روایات کی بیڑیوں سے نجات ملے ۔

نکاح کے بعد لڑکے کے ماموں سے تعارف ہوا ،انھوں نے ازخود بتایا کہ ہم نے ارادہ کیا تھا کہ اس نکاح میں ہم لڑکی والوں کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہونے دیں گے ۔