رانگ نمبر

اچانک فون کی گھنٹی بجی اس بار فون شوہر نے اٹھایا،بغیر بولے کان کو لگا کر رکھا دوسری جانب ایک جاذب مردانہ آواز میں یہ الفاظ سنائی دئیے ” کب سے فون ٹرائی کر رہا ہوں کہاں مصروف ہو کال کیوں نہیں اٹھا رہی تھی” شوہر نے بغیر جواب دیے فون بیوی کی جانب بڑھا دیا بقیہ گفتگو بیوی نے سنی۔

 بیوی کے پاؤن تلے زمین نکل گئیں آواز ہرگز شناسا نہ تھی البتہ بولنے والا اس روانی سے گلے شکوے کر رہا تھا کہ جیسے اسکا اس سے تعلق صدیوں پر محیط ہو۔شوہر نے بیوی کو خون پی جانے والے انداز سے گھورا اور وضاحت طلب کی پر بیوی کی زبان گنگ تھی۔

آج سے دو برس قبل محمد عمران کی شادی ثانیہ نامی خاتون سے طے پائی تھی۔ شادی سے قبل محمد عمران برطانیہ میں تلاش روزگار کے لئے ٹھوکریں کھا رہا تھا آخر کار سات سال کی طویل مدت میں اپنوں سے جدائی کاٹنے کے بعد گرین کارڈ لینے میں کامیاب ہوا۔ دو دسمبر 2018 کو گھر واپسی تھی. گھر والوں نے اسکی آمد سے قبل ہی اسکی چچا زاد سے اسکی منگنی کر رکھی تھی۔ ابھی چند ماہ ہی شادی کو گزرے تھے کہ ایک بار پھر پردیس میں واپس جانا پڑا اور آج دو سال بعد ایک بار پھر وہ اپنے دیس واپس آیا تھا. ائیرپورٹ سے گھر وآپس آنے  کے بعد اپنے گھر والوں اور دوست احباب سے ملا.رات گئے جب وہ اپنی بیوی کے کمرے میں گیا تو فون کی گھنٹی بجی دوسری جانب گلے شکوؤں کا انبار لئے ایک انجان شخص موجود تھا۔ وہ خاموشی سے بیوی کو فون تھما کر کال ختم ہونے کا انتظار کرتا رہا۔

شوہر: کس کا فون تھا اتنی رات گئے۔

بیوی: معلوم نہیں کون پاگل تھا۔

شوہر: اگر وہ نامعلوم پاگل تھا تو تم سے گلے شکوے شکایتیں تو ایسے کر رہا تھا جیسے تمہیں صدیوں سے جانتا ہو۔

بیوی: خُدا کی قسم مجھے معلوم نہیں کہ وہ کم بخت کون تھا جو اس طرح آدھی رات کو فون کر کے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ” روزانہ میں تمہارا انتظار کرتا ہوں پر تم مجھ سے بات نہیں کرتی، مانا کہ تم دور ہو پر دل سے دور نہیں”.

شوہر: (غصے میں چلاتے ہوئے) کیا میں نے اس لیے تم سے شادی کی تھی کہ تم میری غیر موجودگی میں گل چھڑے اڑاتی پھرو؟ آخر تمہارا کیا تعلق ہے اس لڑکے سے؟ کتنی بار میری غیر موجودگی میں اس سے فون پر بات کر چکی ہو؟  کتنی بار اس سے ملاقات کی ہے؟آخر تمہارا کب سے اپنے آشنا سے چکر چل رہاہے اور میری آنکھیں میں دھول جھونک رہی ہو۔

بیوی: میرا یقین کریں میں خود کو آپکی امانت سمجھتی ہوں میں کیسے آپ کے ساتھ دھوکہ کر کہ امانت میں خیانت کر سکتی ہوں۔

شوہر:  (آگ بگولا ہوتے ہوئے) بس بس بہت ہوگیا۔ اپنی اماں کے گھر جا کر امانت امانت کے راگ الاپنا،میں نے تمہارے لئے پردیس میں دن رات گن گن کر گزارے اور تم نے بدلے میں مجھے یہ صلہ دیا ۔ میں تمہیں ایک لمحہ بھی اپنے گھر میں بطور بیوی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔نکل جاؤں میرے گھر سے۔ دفع ہو جاؤ میں۔نظروں کے سامنے سے. میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔

بیوی: اللہ کے واسطے ایسا مت کریں!!

بیوی کے یہ سب کہنے تک بہت دیر ہو چکی تھی، ہنسا بستا گھر اجڑ چکا تھا،  صرف ایک رانگ کال نے لڑکی  کی زندگی داغدار کر کہ رکھ دی تھی، خاندان کی آنٹیوں نے خبر پر جلتی پہ آگ کا کام گیا اور جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پورے خاندان میں پھیل گئی۔ ہر کوئی ثانیہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ سب ہی اس کو کوس رہے تھے کہ شوہر کے ہوتے ہوئے آشنا سے باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

آج ایک اور حوّا کی بیٹی کا گھر صرف موبائل پر موصول ہونے والا رانگ کال کی وجہ سے اجڑ چکا تھا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی لڑکیاں موجود میں جن کے گھر ایک رانگ کال نے اجاڑ دیے۔.

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔