سانحہ موٹروے اور سزائے موت

لاہور موٹروے پر ہونے والا ڈکیتی اور زیادتی کا انتہائی دردناک واقعہ قابل مذمت اور ناقابل معافی جرم ہے۔ اس واقعے کے بعد زبردست عوامی احتجاج اور غصہ دیکھنے میں آیا جس کے نتیجے میں قلیل مدت میں پولیس نے مجرموں کو پکڑ لیا اب جب کہ مجرم اعتراف جرم کر چکے ہیں  حکام کا اولین فرض ہے کہ ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ زنا بالجبر کی سزا انصاف کے مطابق دی جائے۔ ایسا کرنے سے امید کی جاسکتی ہے کہ جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی اور اس قسم کے واقعات میں کمی آئے گی جیسا کہ ایک عرصہ سے زیادتی اور قتل کے واقعات ہورہے ہیں خاص طور پر بچوں سے زیادتی  اور ان کے قتل کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ  واضح طور پر مجرموں کو سزا نہ دینا ہے ۔

ایسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دینی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی شخص اس کی جرات نہ کر سکے ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے یہ اور بھی ضروری ہے کہ  مجرموں کو شریعت کے مطابق سزا دی جائے اور انصاف کو یقینی بنایا جائے اس ضمن میں کچھ تنظیمیں  پھانسی اور سزائے موت کو انسانی حقوق کے  خلاف قرار دے رہی ہیں  تو  ان کے لیے یہ واضح ہو کہ قرآن میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ “تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے” ایک قاتل کو سزائے موت دینا  کئی انسانی جانوں کو تحفظ دینے کے مترادف ہے  اسی طرح ایک زانی کو سزا دینا کئی عصمتوں کو محفوظ کرنے کے برابر ہے قرآن میں سورہ نور میں اس کے بارے میں واضح احکام ہیں، مجرموں سے ہمدردی سے منع کیا گیا ہے اور سر عام سزا کا حکم دیا گیا ہے تاکہ  لوگ عبرت حاصل کریں۔

ان  احکام  کےآگے اپنی بات کرنا، دوسری  سزائیں تجویز کرنا اور تاویلیں تراشنا مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا  لہٰذا موٹروے پر ہونے والے واقعے اور بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام سزائے موت دینی چاہیے تاکہ آئندہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں اس کے ساتھ ہی ایسے عوامل کا سدباب بھی ضروری ہے جو ان جرائم کا سبب بن رہے ہیں معاشرے میں حیا اور حجاب کو عام کریں میڈیا پر بھی بے پردگی کو مسترد کریں تاکہ معاشرے میں حیاداری اور پاکیزگی کو فروغ ملے.