عورت کی سماجی عزت

اس معاشرے کو ایسے مردوں کی ضرورت ہے جو عورت کو ملکہ سمجھنے والے ہوں، جو عورت کی عزت و احترام کرنا جانتے ہوں، جو غیرت مند ہوں، جن کی نگاہوں میں عورت کے لیے شرم و حیا ہو۔ جو عورت کو پاکیزہ نظروں سے دیکھ کر وہی عزت دیں جو اپنے گھر کی ماں بہنوں اور بیٹیوں کے لیے رکھتے ہیں۔ اس معاشرے کو تعلیم یافتہ مردوں کی ضرورت ہے۔ اس معاشرے کو عورت سے زیادہ مردوں کی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ تربیت مہنگے یا جدید تعلیمی اداروں کے بجائے اجتماعی جدوجہد سے شروع ہوگی۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج ”حقوقِ نسواں“ پر دھواں دھار تقاریر کرنے والے، حقوقِ نسواں کا دن منانے والے، تقریبات منعقد کروانے والے، حقوق کے وعدے کرنے والی این جی اوز اور مغربی میڈیا کے نام نہاد حقوقِ نسواں کے علمبردار بھی عورتوں کی تعلیمی حقوق کی بات نہیں کرتے۔ کیا حقوق نسواں صرف گھر سے باہر آزادانہ گھومنا، فحاشی و عریانی کی انتہائی سطح کو چھونا، چھوٹے اور تنگ لباس اوڑھنا، بے ہودہ پوسٹر اور بینر لہرانااور نکاح کے بجائے زنا کو فروغ دینے کا نام ہے۔ اگر ہم تعلیم نسواں کی بات کریں تو ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آج کہ اس پرفتن دور میں جب آئے روز زیادتی، ریپ اور جنسی تشدد کے کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مخلوط تعلیمی نظام اس کی شاید سب سے بڑی وجہ ہے۔

ہر بڑا انسٹیٹیوٹ، کالج،یونیورسٹی اور اسکول وغیرہ اگر مخلوط ہو تو اسے بہت جدید اور بہترین سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں محض اس مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ کیوں کہ دیندار گھرانے اگر لڑکی کو پڑھنے کی اجازت دے بھی دیں، تو وہ کبھی بھی اپنی بیٹی کو اس کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتے،جہاں پڑھانے والے بھی مرد ہوں اور ساتھ پڑھنے والے بھی۔ کہنے والے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ انسان کی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے،لیکن کاش!حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتاہو۔ آج پردہ دار عورت کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس نگاہ سے بے پردہ عورت کو۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو غیر محرم مرد سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

خاندان یا معاشرہ سب ایک عورت کے وجود سے ہی نشونما پاتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی، دین دار اور نیک عورت کئی تہذیب یافتہ نسلوں کا سبب بنتی ہے۔ بلاشبہ تعلیم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر لازم ہے۔ دین اسلام میں بھی اس کی خاص ترغیب آئی ہے۔ خود ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضی اللہ عنہم دین کا علم سیکھ کر دوسروں کو سکھاتی تھیں۔ اور پھر ان نیک اور تعلیم یافتہ خواتین کی نسلوں تک کے نام تاریخ میں سنہرے حروف سے رقم کر دیے گئے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ اس جدید دور میں جب ٹیکنالوجی عام ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ہر گاؤں دیہات تک بھی پہنچ چکی ہے لیکن تعلیم کی اہمیت اور علم کی روشنی سے آج بھی وطن عزیز کے کئی گاؤں، دیہات اور کچی آبادیاں محروم ہیں۔ جہاں بچیوں کی تعلیم کو آزادی یا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں لڑکیوں کو فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھا کر قرآن سے بیاہ دیا جاتا ہے، جہاں جہالت عام ہے۔ جہاں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور ستم تو یہ ہے کہ جہالت نے ان عورتوں سے وہ مقام ہی چھین لیا ہے جو دین اسلام نے عورت کو عطا کیا ہے۔

آج بھی کئی نام نہاد دین دار طبقے ایسے ہیں جو لڑکی کو اسکول جانے دیتے ہیں نہ مدرسے۔ اگر لڑکی پڑھنے کا نام بھی لے لے تو قیامت بپا ہو جاتی ہے۔ ان گاؤں میں کوئی ڈاکٹر ہے نہ استانی۔ جہالت کے اس گھٹن زدہ ماحول میں روز کئی لڑکیوں کی عزت تار تار ہوتی ہے، لیکن ان میں اتنی عقل اور شعور نہیں ہوتا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔ سیکڑوں عورتیں تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں لیکن ان کے علاج کے لیے کوئی خاتون ڈاکٹر موجود نہیں ہوتی بلکہ گھریلو دوائیوں کے ہاتھوں وہ تجربے کی بھینٹ چڑھ کر موت کو گلے سے لگا لیتی ہیں۔ یہ جہالت کے علاوہ ظلم ہے لیکن کسی کو اس کااحساس ہی نہیں۔

تعلیم نسواں کس قدر اہم ہے اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں عورت کو بہت نازک اور سب سے چھپا کر رکھنے والا مقام عطا فرمایا ہے۔ عورت کو غیر محرم کی بے باک نگاہوں سے بچانے کے لیے پردے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جب عورت تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول و کالج کا رخ کرتی ہے تو وہاں پڑھانے والے تمام غیر محرم مرد استاد ہوتے ہیں۔ یہی عورت جب بیمار ہونے پر اسپتال کا رخ کرتی ہے تو اکثریت معالج مرد ہی ان کا علاج کرتے ہیں، یہی عورت جب کمانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے تو کئی غیر محرم مردوں کے درمیان اسے نوکری دی جاتی ہے اور ہر طرح کی نگاہیں برداشت کرتے کرتے یہ عورت خود کو شاید عورت سمجھنا ہی چھوڑ دیتی ہے۔

آج سے پندرہ سو سال قبل جب جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات کا وجود تک نہ تھا تب خواتین خود ہی علاج کرتی تھیں، قرآن و حدیث کی تعلیم دینے والی بھی خواتین ہی ہوتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔ بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین بھی گھر بیٹھے ہی روزگار کماتی تھیں۔ جس کی عملی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں،جو مکہ کی سب سے امیر خاتون تھیں اور گھر بیٹھے دوسرے ممالک میں بھی تجارت کا کام کرتی تھیں۔ دین اسلام سے بڑے کر حقوق نسواں اور تعلیم نسواں کا حق اور کسی نے ادا نہیں کیا۔ ملت اسلامیہ کو حقوق نسواں کے ساتھ تعلیم نسواں پر بھی آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔اور اور عورت کو سماجی عزت دینا ہوگی۔