سیر سنگلاخ وادیوں کی، اور ملاقات امید کی شہزادی سے

آغازِ سفر اللہ کے بابرکت نام سے۔

بلوچستان کے ہمارے اس ایڈوینچر کا آغاز خاصے غیر یقینی حالات میں ہوا،

کرا چی( جس کے موسم کے بارے میں یوسفی کی رائے یہ ہے کہ بندہ صبح اٹھ کے سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ آج مونگ پھلی بیچے یا ٹھندی قلفی کی صدا لگائےاور اسی مخمصے میں اس کا سارا دن گزر جاتا ہے) میں گزشتہ ہفتوں ہونے والی غیر یقینی برسات کی بنا پر یہ سفر ایک ہفتہ تک ملتوی کردیا مگر اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آن پہنچا جب ہم اپنے ٹور گائیڈ کی لمبی سی بس کے باہر اپنا رخت سفر باندھے کھڑے تھے ۔ ہمیں اور ہمارے ساتھیوں کو آخری کی چند نشستوں سے نوازا گیا جہاں بیٹھ کے ہم اپنے خواب بننے لگے۔

بہرحال ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہماری بس کا سوتا ہوا انجن جاگ اٹھا او ہم ر رات کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں یہ سائینسی ایجاد ہمیں روشنیوں کے شہر سے بہت دور لے آئی، یہ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں میں کہ جن کے اوپر پہلے کے برعکس کافی سبزہ نظر آرہا تھا۔ انہی نظاروں میں گم جلد ہی ہم وندر جا پہنچے جہاں ایک چھوٹے سے ہوٹل پر گرما گرم چائے پی۔ ابھی چند لمحے ہی آرام کے گزرے تھے کہ پھر سے سفر کا اذنِ عام سنائی دیا اور نقار خانے میں ہمارے احتجاج کو چنداں اہمیت نا دی گئی اور پھر سے ابن بطوطہ کی سنت کو دہرانا شروع کیا گیا۔

ہم نے وادئ خواب میں ہواؤں کا رخ کیا کافی دیر سونے کے بعد آنکھ کھلی تو بس ویسے ہی اندھیروں کو چیرتی رواں دواں تھی، ساتھیوں سے پوچھا تو معلوم ہوا دلی دور است۔ خیر کافی دیر کے بعد دوڑتی بس کو قرار آیا اور ہمارے ٹور گائیڈ نے اعلان کیا کہ ساتھیوں رات کی اس تاریکی کو گریزاں اور ابھرتے سورج کی جاہ و حشمت دیکھنا چاہتے ہو تو آؤ اور نظر دوڑاؤ اس خالق کی عظمت پر جو اسے طلوع کرتا ہے۔

ہم گاڑی سے اترے اور کنڈ ملیر کے ساحل پر کھڑے ہوکر سورج کو مشرق سے ابھرتے دیکھ کر اپنی ساری تکان کو خدا حافظ کہا اور قدرت کے ان حسین نظاروں میں گم ہوگئے ۔

ابھرتا سورج روشنی اور امید کی نشانی، اپنے جاہ وجلال کا اعلان کرتے ہوئے مشرق سے ابھرتا نظر آیا،ابھی مشرق کے اس شاہسوار کو آنکھ بھر کے دیکھا بھی نہ تھا کہ “ناشتہ تیار ہوگیا” کی آواز نے ہمیں چونکا دیا ، چند ہی منٹوں میں ہم کنڈ ملیر کے ساحل کے ساتھ موجود اکلوتے ریسٹورنٹ پر بیٹھے گرم گرم پراٹھوں اور انڈوں کے ساتھ ناشتہ تناول کررہے تھے۔

ناشتے کے ذرا دیر بعد ہی ہمارے ناخدا نےچپو سنبھال لیے اور ہوا کے زور پر ڈولتی کشتی کی مانند سفر کا آغاز ہوا۔ جی ہاں، مکران کوسٹل ہائی وے کا سفر، کہ جس کی اک جانب سنگلاخ چٹانیں تو دوسری جانب کئی میٹر کی گہرائی میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور درمیان میں بل کھاتا مکران کوسٹل ہائی وے ،اقبال کے ان الفاظ کی تشریح کررہا تھا کہ:

وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی

اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی

اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی

بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی

رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ

پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ

خیر انہی راستوں پر مزے لوٹنے اور دل دہلانے کے بعد ہم امید کی شہزادی تک پہنچے تو قدرت کی صناعی پر مبہوت رہ گئے، جی ہاں بلوچستان کے ان پہاڑوں کے درمیان مرکزی ہائی وے سے ذرا ہی پرے واقع اس پتھر کو قدرت نے کچھ اس خوبصورتی سے تراشا ہے کہ دور سے دیکھنے والوں کو یہ سر پہ تاج سجائے کسی رعب دار شہزادی کی مانند نظر آتی ہے۔

ہمیں گمان گزرا کہ یہ نام شاید کسی چرواہے نے دیا ہو کہ یہ مجسمہ سمندر سے قریب ہی واقع ہے لیکن گوگل سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ نام سنہ دو ہزار چھ میں یہاں آنے والی اداکارہ، انجلینا جولی نے اسکا یہ نام تجویز کیا۔ ہمارے نا خدا نے ہمیں خبردار کیا کہ بلندی پر موجود اس حسن تک پہنچنا کافی مشکل ہے لیکن ہمارے حوصلے تواں تھے اور حسن کی رسائی کے آگے ہر مشکل ہیچ نظر آئی۔ اک دوسرے کو سہارا دیتے کچھ دیر میں ہی ہم اس شہزادی کے سائے میں کھڑے تھے مگر اب اس کا حسن ماند نظر آرہا تھا اور وہ محض پتھر کا بنا اک ٹیلہ معلوم کوریا تھا۔ خیر وہاں تھک کے ہم بیٹھ گئے اور آس پاس نظر دوڑائیں تو عجیب تراش خراش سے کٹے ہوئے پہاڑ تھے ذرا ہی دور شطرنج کے بادشاہ کی طرح ہاتھ میں تلوار تھا مے شہزادہ کھڑا نظر آیا یا ہمیں گمان گزرا کے شاید رات کے کسی پہر جب یہاں کوئی نہ آتا ہوگا تو تو امید کی شہزادی اور یہ شہزادہ سمندر کنارے بیٹھ کے گھنٹوں اپنے مستقبل کے خواب بنتے ہوں گے: کہ آؤ ایک حسین دنیا کے مل کر خواب ہم دیکھیں یا شاید انسانوں کی اس زبوں حالی پر افسوس کرتے ہونگے ، تخیل کی اس حسیں دنیا نے ہمیں حقیقت سے دور کا کھڑا کیا ایسے میں جب ہم راجا و رانی کی گفتگو میں منہمک ہمارے ٹور گائیڈ کی آواز ہمیں واپس بلوچستان کی چٹانوں میں کھینچ لائی، دن ابھرتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ گرمی کا احساس بھی۔

اپنے ناخدا کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے کمر کسی اور پھر سے قدرت کے حسین نظاروں میں گم ہوگئے، راستے میں دو جگہ گولڈن بیچ اور ایک شیر کے مجسمہ کے پاس رک کر تصاویر کھنچوانے کے بعد کنڈ ملیر کے ساحل پر آن وارد ہوئے۔ بڑھتی ہوئی گرمی اور سمندر کا ٹھنڈا پانی…

ہم نے بلا تکلف سمندر میں چھلانگ لگادی لیکن یہاں کی لہروں نے ذرا مہمان نوازی نہ کی بلکہ ہمیں اٹھا کر واپس ساحل پہ پٹخ دیا ہم نے بھی ہار نہ مانی اور یونہی ان لہروں پہ مزے لوٹتے رہے سرف بورڈ سمیت ہم لہر پر سوار ہوتے اور اس کے اوپر تیرتے چلتے جاتے کافی دیر یونہی لطف اندوز ہونے کے بعد دوپہر کے کھانے کے لئے پکار سنائی دی گئی،

یوں تو سمندر سے باہر نکلنے کا موڈ نہ تھا مگر پیٹ میں دوڑتے چوہوں نے ہماری ایک نہ چلنے دی اور ذرا ہی دیر بعد ہم دوبارہ اسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے مزیدار کڑاہی گرم گرم روٹیوں کے ساتھ نوش کررہے تھے۔ ظہرانے اور نماز کے بعد واپسی کے سفر کا آغاز ہوا رات بھر کی تکان اور اس سارے ایڈوینچر نے ہمیں ادھ موا کردیا تھا چنانچہ ہم اپنی سیٹ پر ٹیک لگائے آنکھیں موندکر بیٹھ گئے۔ ابھی شاید ونڈرلینڈ کے دروازے تک ہی پہنچے ہونگے کہ معلوم ہوا گویا صور پھونکا جارہا ہے اور ہر بندہ اٹھ کر بھاگ رہا ہے، آنکھیں ملیں اور حواس بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ:

یہ رانی مندر کا اسٹاپ ہے، دریائے ہنگول کے کنارے پہاڑوں کے درمیان واقع اس مندر کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کی زیارت کی خاطر سرحد پار سے ہر سال کئی زائرین آتے ہیں دریا نے تو بہنے کا شغل کافی عرصے سے ترک کیا ہوا ہے اور اب اس پر دریا کا تو محض الزام ہی باقی رہ گیا ہے، بہرحال ہم نے پہاڑوں کے درمیان جا کے اس قدرت کی صناعی پر غور کیا، یہ قدرتی ترشے ہوئے سنگلاخ پہاڑ یوں معلوم ہوتے ہیں گویا ابھی سر پہ آ پڑیں گے۔ ابھی چٹان در چٹان سلسلوں کو مسخر کرکے ستاروں سے آگے اور جہانوں کی کھوج میں ہم شاید بہت دور نکل جاتے کہ پیچھے رہ جانے والوں نے ہمیں پکارا کہ: اے افق کے پار کھوجنے والوں رکو ذرا، اس خوب سے خوب تر کی جستجو تمہیں اپنوں سے کہیں دور نہ لاکھڑا کرے اور تم وقت کی انجان گھاٹیوں میں گم ہو جاؤ۔

بادل ناخواستہ نا چاہتے ہوئے بھی ہمیں واپسی کا رخ کرنا پڑا، اب کئ دن بعد جب ہم یہاں بیٹھے اپنی داستان سفر رقم کررہے ہیں تو آج بھی روشنیوں کے اس شہر سے ذرا ہی پرے ان آسائشوں سے بہت دور یہ خوبصورتیاں آج بھی دماغ کو تر و تازگی فراہم کرتی ہیں۔

9 تبصرے

Comments are closed.