تُم اپنی کرنی کر گُزرو

جب آپکی طبعیت لکھنے پر مائل نہ ہو تو آپ کچھ بھی نہیں لکھ سکتے کیونکہ لکھنے کیلئے صرف کاغذ قلم نہیں چاہئیے ہوتا ہے بلکہ وہ احساس جذبات اور کفیت بھی چاہئیے ہوتی ہے جس موضوع پر آپ لکھنا چاہتے ہوں,الفاظ کا بھی ایک تقدس ہوتا ہے یوں ہی تو نہیں ہوتا ناں وہ کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔

 میری طبعیت بھی عمران خان کے بیانات کی طرح دن میں کئی دفعہ یو ٹرن لیتی ہے کبھی خوشی کبھی غم جیسی کفیت ہوتی ہے جب آپ زمانے کی کارستانیوں میں پھنسے ہوئے ہوں تب پھر اگر آپکو فرصت کے لمحات میسر آ بھی جائیں تو تب الفاظ یوں دور بھاگتے جیسے پولیس کو دیکھ کر چور۔

خیر میں لکھنے کیلئے کبھی مصنوعی سہاروں کا سہارا نہیں لیتا (مطلب طبیعت پر زبردستی نہیں کرتا) اور میرا ماننا ہے کہ انسان کو اپنی ذات کیلئے وہ کام ضرور کرنا چاہئیے جس میں وہ اپنی ذات کا ذہنی سکون اور راحت محسوس کرتا ہو تو “میں” لکھنے میں بھی راحت محسوس کرتا ہوں دوسرا میرے والد صاحب مجھے ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے بیٹا دنیا مُشکلات کی دلدل ہے اپنی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو قانونی اور قلم کی نوک سے عبور کرنا اس بات کا مطلب آج بابا کے جانے کے بعد یقیناً احساس دلاتا  ہے کہ بابا نے ایسا کیوں کہا تھا۔

آج ڈپریشن ہو چاہے وہ نجی زندگی کے معاملات ہوں یا کاروباری معاملات کی جھنجٹ اُس سے چھُٹکارہ پانے کے لئے میرا قلم ہی بہترین ہتھیار ہے۔ بابا کے جانے ک بعد بہت ساری دنیاوی مشکلات کے سمندر میں غوطہ زن ہوں یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کشتی کنارے پر کب پہنچے گی لیکن میرا قلم مُجھے میرے قارئین سے جوڑے رکھتا ہے, یہ قلم ہی ہے جو مُجھے بدترین ذہنی دباؤ سے نکلنے میں میری مدد کرتا ہے اور مجھے راحت کا احساس دلاتا ہے۔

انہی درج بالا نکات کیوجہ سے لکھتے لکھتے دوستوں کی نظر میں ہم لکھاری بنتے گئے حالانکہ میں لکھاری آج بھی خود کو نہیں مانتا دو چار لائینز سے کورے کاغذ کو کالی سیاہی سے بھر دینے کو رائیٹر نہیں کہتے خیر آج بھی جب اپنے پسندیدہ موضوع پر لکھنے کا سوچتا ہوں تو منیر نیازی نے صرف دیر کی تھی مگر میں بہت دیر کر دیتا ہوں بہرحال دیر آید درست آید پر مصداق آ جاتے ہیں جب سر خلیل احمد صاحب(کالمسٹ, آر جے) جیسے  غلطیاں نکالنے والے استاد ملیں تو شاگردوں کی تو گویق چاندی ہی ہو جاتی ہے اور سر نے میری مختلف تحاریر پڑھنے کے بعد نیوز پیپر میں لکھنے کا مشورہ دیا تھا (جو ابتک جاری و ساری ہے) ۔

محترمہ بہن تہمینہ رانا صاحبہ Tahmina Rana (سینئیر جرنلسٹ نیوز اینکر کالم نگار نوائے وقت )جیسی استاد کی راہنمائی اور پذیرائی ملے تو حوصلے زمین سے آسمان کو چھونے لگتے ہیں۔  الحمداللہ جب بھی آج تک جو بھی آرٹیکل کسی پروفشنل اخبار یا بلاگ میں بھیجا تو اشاعت کی سند پا گیا جو میرے لئیے اعزاز کی بات ہے۔  میں تعمیری تنقید کو ہمیشہ خوشدلی سے قبول کرتا ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ہم پر تنقید کرنے والا کوئی نہ ہوتا تو ہم کیسے سیکھ پاتے غلط کو صحیح لکھنا؟؟؟

انسان کے اندر اللہ کی جانب سے عطا کردہ ایک ایسی صلاحیت ہوتی ہے، جُنون ہوتا ہے جو اُس انسان کی زندگی میں سُکون لانے کا سبب بنتا ہے۔ ایک سوال خود سے کریں کہ کون سا ایسا کام ہے جس کو کرنے سے آپ کے دل کو تسلی ملتی ہے۔ جس کو کرنے سے آپ اپنی ٹینشن بھول جاتے ہیں۔ کھانا، سونا، انٹرنیٹ اور موبائل کو نکال کر سوال کریں۔ جو جواب آئے وہ آپ کا خُفیہ ٹیلنٹ ہو گا۔

لیکن یہ سوال اور جواب اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ کئی غلط جوابات کے بعد صحیح جواب آتا ہے۔ بس اُس جواب کو کھوجنے کی جُستجو اور کسی اُستاد کی حوصلہ افزائی چاہیے ہوتی ہے۔ حوصلہ شکنی کو برداشت کرنا سب سے اہم اور مُشکل کام ہے۔ کئی لوگ اس حوصلہ شکنی سے مایوس ہو کر اپنا ٹیلنٹ ڈھونڈنا یا سُدھارنا بند کردیتے ہیں۔ پوشیدہ صلاحیت کی تلاش ایک صبر آزما اور مُشکل امر ہے۔ اس میں ناکامی بہت بار ہوتی ہے۔ کئی مُغالطے بھی ہوتے ہیں۔

فیض صاحب نے کیا خُوب کہا ہے   ؎                     تُم اپنی کرنی کر گُزرو

        جو ہوگا دیکھا جائے گا