انفاق فی سبیل اللہ

اسلام ہر مسلمان میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا کرتا ہے،تاکہ وہ مال کی محبت کا اسیر نہ بن جائے، بلکہ اس میں اللہ اور بندوں کے حقوق کو پہچانے، اور ضرورت سے زائد مال کو اللہ کی راہ میں اور دوسروں کی بہتری کے لئے خرچ کر دے۔انفاق فی سبیل اللہ خیر اور برکت کے بڑے دروازوں میں سے ہے، جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کی شان بڑھا دیتے ہیں، اور اس کی قدرو منزلت میں اضافہ ہو جاتا ہے، یہ نہ صرف منفق کے درجات کو بلند کرتا ہے، بلکہ اس کے مال و دولت کی نشو نما بھی کرتا ہے۔

اللہ تعالی کی اطاعت کے دائرے میں داخل ہونے والاوسعتِ دل کا مالک ہوتا ہے۔ وہ نہ زر پرست ہوتا ہے نہ تنگ دل۔ وہ اپنے مال کو سمیٹ سمیٹ کر نہیں رکھتا، بلکہ اس میں اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے، اسے ایمان سب چیزوں سے بڑھ کر عزیز ہوتا ہے، اور وہ اس کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ اللہ تعالی نے متقین کی صفت بیان کی ہے کہ:

’’جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (البقرۃ، ۳)

یعنی انفاق فی سبیل اللہ ، بخشش اور مغفرت پانے والوں کا لازمی وصف ہے۔

’’یقیناً فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو: زکوۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں‘‘۔ (المؤمنون، ۱۔۴)

اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنا متقین کے بنیادی اوصاف میں سے ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عملی طور پر بندگی کو اپنا شعار بنائیں۔ نماز عملی اطاعت کی اولین اور دائمی علامت ہے، اور انفاق اسے اللہ کی خاطر مالی قربانی پر ابھارتا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ کا حکم

اللہ تعالی نے اپنے مخلص بندوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین کی ہے:

’’ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول ؐ پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تمہیں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لئے بڑا اجر ہے‘‘۔(الحدید، ۷)

اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی مراد  بھی ہیں۔

 ۱۔ تمہارے مال ، جو تمہارے پاس ہیں، یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ اللہ کا بخشا ہوا مال ہے۔ تم بذاتِ خود اس کے مالک نہیں ہو، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرّف میں دیا ہے۔ نائب کا یہ کام نہیں کہ مالک  کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے۔

۲۔ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا،  نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے۔ کل یہ کچھ دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے ہاتھ میں ہے، اللہ نے تمہیں اس کا جانشین بنا کر تمہارے حوالے کیا ، پھر ایک وقت آئے گا، جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا، کچھ دوسرے لوگ تمہارے جانشین بن جائیں گے۔ اس عارضی جانشینی کے وقت میں اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی  اجر تمہیں حاصل ہو۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۵، ص۳۰۶)

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (التغابن، ۱۶)

جو کوئی خرچ کرتا ہے تو در اصل اپنے لئے ہی کرتا ہے۔ اور اللہ تعالی کا حکم بھی یہی ہے کہ بندہ جو کام بھی کرے اپنے لئے کرے، کیونکہ اس کا بہتر اجر اسی کے لئے ہے۔ گویا یہ خرچ اس کے اپنے لئے ہی ہے۔ اللہ تعالی اہلِ ایمان کو بتاتا ہے کہ انفاق کی راہ میں رکاوٹ بخیلی اور تنگ دلی ہے، اور یہ ایسی مصیبت ہے جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو اس بخل سے نجات پا گیا۔ جو اس سے بچا لیا گیا وہ سمجھ جائے کہ اس پر فضل و کرم ہو گیا ہے۔

انفاق کی قسمیں

شریعت ِ اسلامی میں مال میں انفاق کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ واجب: یعنی اپنے پر، اپنی اولاد اور گھر والوں پر خرچ کرنا اور مال میں (صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں)فرض  زکواۃ ادا کرنا۔

۲۔ مستحب:  نفلی صدقات، نیکی کے مختلف راستوں میں خرچ کرنا، جیسے فقراء و مساکین، حاجت مندوں، بیواؤں اور یتیموں پر خرچ کرنا، ہدیے اور تحائف دینا، اور نیکی اور مدد کی طلب کرنے والے اجتماعی مراکز اور تنظیموں وغیرہ کو دینا۔

انفاق کیسا ہو؟

نیکی کی اصل روح  اللہ کی محبت ہے، ایسی محبت کہ  رضائے الہی کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔

’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی وہ چیزیں (فی سبیل اللہ) خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو خرچ بھی تم کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہو گا‘‘۔ (آل عمران، ۹۲)

انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ’’انصار ِ مدینہ میں ابوطلحہؓ بہت ہی مالدار تھے، اور ان کو ان کی دولت میں سے محبوب ترین ایک کنواں تھا، جسے ’’حاء‘‘ کہتے تھے۔ یہ مسجدِ نبویؐ سے بالمقابل تھا۔ رسول اللہﷺ اس کنویں پر جا کر اس کا پاک وصاف پانی پیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو ابو طلحہؓ نے رسول اللہﷺ سے کہا: میرا محبوب مال تو ٖحاء کنواں ہے۔ اور وہ میری طرف سے صدقہ ہے۔ میں اس کا ثواب اور عند اللہ جزا چاہتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو بڑا نفع بخش اور قیمتی مال ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنے اقرباء کے درمیان تقسیم کر دو۔ ابو طلحہؓ نے کہا: آپؐ ہی ایسا کر دیں۔ آپؐ نے اسے ان کے اقرباء اور چچا زادوں میں تقسیم کر دیا۔ (متفق علیہ)

حضرت عمرؓ نے کو خیبر کی زمینوں کا حصّہ ملا تو انہوں نے کہا:

یا رسول اللہﷺ، خیبر میں مجھے جو حصّہ ملا ہے، اس سے اچھی جائیداد مجھے کبھی نہیں ملی، تو اس کے بارے میں آپؐ کیا مشورہ دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اصل جائیداد اپنے پاس رہنے دو اور پیداوار سبیل اللہ کر دو۔ (رواہ مسلم و بخاری)

صحابہ اکرامؓ اسی راہ پر ایک دوسرے سے آگے بڑھے اور انہوں نے مال اور دولت کی غلامی سے اپنے آپ کو رہائی دلوا لی، اور دل کے بخل، کنجوسی اور لالچ سے نجات پالی۔ اللہ تعالی نے انصارِ مدینہ کی تعریف یوں بیان کی:

’’اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود اپنی جگہ محتاج ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ جو دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (الحشر، ۹)

انصار نے مہاجرین ِ مکہ کو دل کھول کر اپنے اموال پیش کئے اور انہیں اپنے باغوں کی پیداوار تک میں شریک کر لیا، اور جب بنو النضیر کی جائیداد مسلمانوں کے قبضے میں آئی تو انصار نے انہیں مہاجرین میں تقسیم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی، اور اسی ایثار کا ثبوت انہوں نے اس وقت دیا جب رسول اللہ ﷺ نے انصار کو بحرین کی مفتوحہ اراضی دینا چاہی، تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصّہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۵، ص۳۹۶)

اہلِ ایمان کے ہر چھوٹے بڑے خرچ کی تہہ میں اللہ تعالی کی محبت موجزن ہوتی ہے۔ ان کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا:

’’وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘‘۔ (الدھر، ۸۔۹)

یعنی وہ اس کھانے کے محبوب اور دل پسند ہونے کے باوجود  اور خود اس کے حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کو کھلا دیتے ہیں، اور یہ کام وہ اللہ کی محبت میں کرتے ہیں، اور اس سے وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس وقت مکی معاشرے میں فخر و مباہات اور نمود و نمائش کے لئے تو بہت مال خرچ کیا جاتا تھا، لیکن غریبوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہ پائی جاتی تھی۔ اس خود غرضی اور کنجوسی کے ماحول میں ، اسلام کے پروردہ یہ نیک لوگ ہی تھے، جو غرباء کے لئے سایہ دار درخت تھے۔ وہ اپنی ذاتی محتاجی کے باوجود  لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ خلوص اور محبت کے جذبات کے ساتھ وہ اللہ کی رضامندی کی خاطر یہ نیکی کرتے تھے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر الآیہ)

انفاق ، قرضِ حسنہ ہے

اللہ تعالی اپنے بندوں کو راہِ خدا میں خرچ کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اور ان کے دلوں میں انفاق کو محبوب بناتا ہے، وہ اس قرض کو قرضِ حسن سے تعبیر کرتا ہے۔ قرض بھی وہ جو مالکِ کائنات اپنے غلام سے مانگ رہا ہے۔ اور قرض لیکر وہ اسے کئی گنا بڑھا کر اسے واپس کر دیتا ہے، وہ قرض دینے والے کی قدر افزائی بھی کرتا ہے، اور اس کے سبب اس کی کوتاہیوں کو بھی معاف کرتا ہے۔وہ فرماتا ہے:

’’اگر تم اللہ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدر دان اور برد بار ہے۔ (التغابن، ۱۷)

قرضِ حسنہ  ایسا قرض ہے، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے۔ اس طرح جو مال راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، اسے اللہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کروں گا، بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ دوں گا۔البتہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرضِ حسنہ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لئے نہ دیا جائے، بلکہ محض اللہ کی خاطر ان کاموں میں صرف کیا جائے، جن کو وہ پسند کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۸۵)

انفاق کی راہیں

انفاق فی سبیل اللہ کی کئی راہیں ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (الحج، ۳۵)

یہاں رزق سے مراد پاک رزق ہے، اور خرچ سے مراد ہر طرح کا خرچ نہیں بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسائیوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہِ عامہ کے کاموں میں حصّہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے مالی ایثار  کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں جسے قرآن انفاق قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے ، کہ آدمی اہل و عیال کو تنگی میں مبتلا کرے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے اور خلق ِ خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے، تو قرآن اسے ’’شحّ نفس قرار دیتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۲۲۶)

ارشاد ِ الہی ہے:

’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دوکہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہو گا‘‘۔ (البقرۃ، ۲۱۵)

مسلمانوں نے سوال کیا تھا کہ وہ کیا خرچ کریں؟  نوعیتِ انفاق کیا ہو؟ جواب میں انفاق کی صفت اور انفاق کے مصارف بیان کئے گئے: جو بھی خرچ کرو اسے ’’خیر‘‘ ہونا چاہیے۔ دینے والے کے لئے بھی خیر ہو اور لینے والے کے لئے بھی، اور اس معاشرے کے لئے بھی، جس میں یہ لین دین ہو رہا ہو، اور اپنی ذات میں بھی وہ خیر ہو۔ اس طرح ہو کہ عمل بھی پاک، تحفہ بھی پاک، اور چیز بھی پاک۔

دوسرا یہ کہ خرچ کرنے والے کو سوچ سمجھ کر اپنے مال میں سے اعلی تر چیز خرچ کرنی چاہیے، اس کے پاس جو بہترین چیزیں ہوں انہیں خرچ کرے، اور اس میں دوسروں کو شریک کر لے۔ انفاق سے دل پاک ہو جاتا ہے، اور دوسروں کی مدد ہو جاتی ہے۔ تلاش کر کے اپنے مال میں سے بہتر چیز خرچ کرنا ایسا اقدام ہے جس سے دل میں طہارت آ جاتی ہے۔

انفاق کرنے والے اور ان لوگوں کے درمیان مخصوص روابط ہیں۔ بعض میں نسبتی رشتہ ہے، بعض کے درمیان رحم کے رشتے ہیں، بعض کے ساتھ محض رحم و شفقت کا رشتہ ہے، اور بعض کے درمیان نظریات کے وسیع حدود میں صرف انسانی ہمدردی کا تعلق ہے۔ اور سب کو ایک ہی آیت میں سمو دیا گیا ہے، والدین، قرابت دار، یتامی، مساکین  اور مسافر، ان سب کو ضروریات میں بوقتِ ضرورت معاونت کی گارنٹی حاصل ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر الآیۃ)

انفاق کی ترتیب

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’لوگ پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ (البقرۃ، ۲۱۹)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’جب خرچ کرو، تو اپنے آپ سے شروع کرو، جو زائد ہو وہ تمہارے اہل و عیال کے لئے ہے،  اور اہل و عیال سے جو بچ جائے وہ قرابت داروں کے لئے ہے، اور جو قرابت داروں سے بچ جائے وہ ایسے اور ایسے خرچ کرو‘‘۔ (رواہ مسلم، ۳۹۶۸)

۔ اس سے مراد گھر والوںسے زائد شے ہے۔ (ابنِ عباس)

۔ یہ اعتدال کا خرچ ہے، جس میں نہ بخل ہو نہ اسراف۔ (حسن بصری)

انفاق میں تعجیل

بہترین خرچ وہی ہے جو موت کے خوف سے یا اسے سامنے پا کر نہ کیا جائے، بلکہ امید کے لمحات میں خدا کی خوشنودی کی خاطر خرچ کیا جائے، ارشاد باری تعالی ہے:

’’جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ کہے کہ ’’اے میرے رب ! کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ کرتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا‘‘۔ (المنافقون، ۱۰)

یہ سب سے بڑی حماقت اور خسارہ ہے، کہ انسان خرچ کرنے کے لئے مناسب موقع کے انتظار میں بیٹھا رہے اور اس کی مہلت ہی ختم ہو جائے۔ جس مال کو راہِ خدا میں خرچ کر کے وہ اجرِ عظیم کا مستحق بن سکتا تھا، وہ اس کے ہاتھ سے نکل کر وارثوں تک پہنچ جائے، اور اس کی تمنا بے کار چلی جائے۔

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ ﷺ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے؟  فرمایا: ’’یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کسی کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتاہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

انفاق فی سبیل اللہ کے ثمرات

۱۔ جنت میں داخلہ

اللہ تعالی نے دوڑ کر جنت کی طلب کرنے والے مومنین کی صفات بتاتے ہوئے فرمایا:

’’جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال( ۔۔ ) ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں (آل عمران، ۱۳۴)

انفاق فی سبیل اللہ سے جس قسم کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، اللہ کی بخشش اور اس کی جنت انہیں سے حاصل ہو سکتی ہے۔

۲۔ آگ سے بچاؤ، اور برائیوں کا دور ہو جانا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے کر ‘‘۔ (رواہ البخاری، ۱۴۱۷)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جیسے آگ کو پانی‘‘۔(اخرجہ الترمذی، ۲۶۱۶)

۳۔ نیکیوں کی کثرت اور کئی گنا اجر

اللہ تعالی راہ ِ خدا میں خرچ کی مثال بیان فرماتا ہے:

’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں،  ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ اور وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘۔ (البقرۃ،۲۶۱)

یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہو گا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں، اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۰۳)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اللہ سود کا لٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۷۶)

اگرچہ بظاہر سود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ صدقات سے (جن میں قرضِ حسن بھی شامل ہے) اخلاق و روحانیت اور تمدّن اور معیشت، ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے۔اگر معاشرے کے خوشحال افراد اپنی حیثیت کے مطابق پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، اور پھر جو ان کی ضروریات سے بچے، اسے غریبوں میں بانٹ دیں، تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، اس سے بھی بچ جائے تو بلا سود قرضے دیں، تو عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا۔

۴۔ انفاق پاک کرتا ہے

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان پاک ہو جاتا ہے، اس کا دل بھی پاک ہو جاتا ہے اور مال بھی، اور آفات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ ارشاد الہی  ہے:

’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو، اور انہیں( نیکی کی راہ میں)بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو، کیونکہ تمہاری دعا ان کے لئے وجہِ تسکین ہو گی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔(التوبۃ، ۱۰۳)

انفاق کے آداب

اللہ کی راہ میں انفاق کرنے والا ان آداب سے واقف ہو گا تو اس کا عمل زیادہ اجر پائے گا۔

۱۔ اخلاص

یعنی منفق خالصۃ للہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے، اور اسی کی خوشنودی کا طالب ہو، اس کی نیت نہایت اعلی ہو، اور اس میں کسی اور جذبے کی ملاوٹ نہ ہو، نہ ریا کا شکار ہو نہ لوگوں میں اس کے تذکرے کا خواہش مند ہو، اور نہ ہی کسی سے شکریہ اور مفاد چاہتا ہو۔

قیامت کے دن اس سخی شخص کی سخاوت قبول نہ کی جائے گی، جس نے لوگوں میں ناموری کی خاطر اپنا مال خرچ کیا ہو گا، اور اسے فرشتے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پھینک دیں گے۔ (بحوالہ مسلم، ۱۹۰۵)

۲۔ احسان جتانے اور اذیت دینے سے پاک

اللہ کی راہ میں مال کرچ کرنے والا حاجت مندوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھے، اور ان کا اکرام کرے۔ وہ بلند حوصلہ اور اور بردبار ہو، نہ کہ چھچھورا اور کم ظرف۔ارشادِ باری ہے:

’’اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو ، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا ، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ‘‘۔ (البقرۃ، ۲۶۴)

اس کی ریاکاری خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔بارش کا فطری تقاضا تو یہی تھا کہ نیکی کا بیچ نشو نما پائے اور روئیدگی لائے، لیکن صاف چٹان پر موسلا دھار بارش نے اس کی ہلکی سی مٹی کو بھی بہا دیا، اور سخت اور کرخت چٹان باقی رہ گئی، جس میں نیکی کا بیج پروان نہ چڑھ سکا۔ایسا ہی حال ریاکار دل کے انفاق کا ہوتا ہے۔وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو احسان جتا جتا کر اس شخص کو تکلیف دیتا ہے اور اسے اذیت کا شکار کرتا ہے جسے اس نے کچھ مال دے دیا ہے۔ اور جب نیت نیک نہ ہو تو انفاق محض مال کا ضیاع ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ اس شخص کو قیامت کے روز شرفِ ہمکلامی اور نظرِ عنایت سے محروم رکھے گا، جو عطیّے پر احسان جتاتا ہو۔

۳۔ پاکیزہ مال سے انفاق

اللہ تعالی پاک ہے اور وہ پاک مال ہی پسند کرتا ہے، بلکہ نیکی کا اعلی درجہ تو یہ ہے کہ بندہ اپنے محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصّہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تم ہر گز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ‘‘۔

نیکی اور اجر اسی انفاق سے ملتا ہے، جو پاکیزہ بھی ہو اور دل کی خوشی سے کیا جائے۔ ’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی وہ چیزیں( راہِ خدا میں)خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران، ۹۲)

۴۔ انفاق میں اعتدال

مال اللہ تعالی کی جانب سے انسان کو امانت کے طور پر ملا ہے۔ جب وہ اسے خرچ کرے تو اعتدال سے، نہ بخل کرے نہ اسراف! اللہ تعالی  ایسا ہی خرچ پسند کرتا ہے، اور اسی کا حکم دیا ہے:

’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے‘‘۔ (الفرقان، ۶۷)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ ودانا ہونے کی علامتوں میں سے ہے‘‘ (احمدو طبرانی)

جب بندہ خاموشی سے انفاق کرتا ہے، اور چھپا کر صدقہ کرتا ہے تو اس کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ اگر کوئی ضرورت مند اس تک پہنچتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کی حاجت پوری کرتا ہے، جب اسے مال کی فراوانی ملتی ہے تو وہ اہل ِ حاجت کو تلاش بھی کرتا ہے، وہ اپنے مال کی افزونی کے لئے اسے صدقہء جاریہ میں لگاتا ہے، تاکہ اس کا اجر اسے برابر ملتا رہے۔ وہ زندگی، صحت اور کشائش کی حالت میں اللہ سے بہترین اجر کی امید پر اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اور اپنے قرابت داروں پر خصوصی عنایت کرتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتا ہے، اور اپنی عسرت میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کرتا ہے، اور اللہ کو وہ مال پیش کرتا ہے جو اسے محبوب ہو۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

8 تبصرے

  1. … [Trackback]

    […] Here you can find 63432 additional Info on that Topic: jasarat.com/blog/2020/09/14/dr-memona-hamza-19/ […]

Comments are closed.