حیا سوز حادثے 

١١ستمبر کو جماعت اسلامی نے دو معصوم بچوں اور خاتون کی موٹر وے پر عصمت دری اور بچوں کے ساتھہ زیادتی قتل کے غلاف مظاہرے کیے ان حادثوں نے ملک کے ھر فرد کو ہلا کر رکھ دیا ہے اوروہ سوچنے پر مجبور ھوگۓ ھیں کہ نوجوانی کس نہج پر چل رھے ہیں ۔ ۔یہ قاٸد اعظم کا یوم وفات کا دن ھے ۔وہ مرد مجاہد نے ہمیں آزاد مملکت اپنی جان پر کھیل کر دلوادی نہ ھم اس کی لاج آج تک نہ رکھہ سکے اور نہ اسے اسلام کا قلعہ اور نہ اسلامی آٸین نافذ کرسکے ۔اورنہ یہاں اب کسے کے جان و مال اور عزتیں محفوظ ھیں۔

 اور کل جماعتی احتجاج ھوا خلفا۶ راشدین کے خلاف شعیہ حضرات نے جو زھر اگلا خلفا۶ ۔اسلامی ریاست میں حیا سوز واقعات ھو رھے ھیں ۔ ۔ھم مغرب اور ہندووں کو کہتے ھیں وہاں عورت محفوظ نہیں کیا اب ھماری خواتین بچےبچیاں محفوظ ھیں معصوم بچوں کے ذھن پر کیا نقوش چھوڑے ھونگے ایسے حادثات اور میڈیا میڈیا نے وسے تباھی مچادی ھے ۔ قوانین زندگی معاشرت اور اسلامی معاشرے اقتدار کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ۔بڑوں سے سنا تھا کے قیامت کے قریب روز نۓفتنی سر اٹھاٸیں گے اور بے حیاٸ عام ھوجاۓ گی گھر گھر ناچ کانا ھو گا۔

اب اس کے کام کےلیے پرنٹ الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا ھے تعلیم سمارٹ موباٸل پر آگی تعلیمی اداریے بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں بدکاری کے لیے ںہاں کھلے عام دعوت دی جاتی ھے ۔ھم کیا لو ط کی قوم پیچھے رہ گیے ھیں ۔۔۔۔؟ اب ھمیں اپنے لڑکوں کی تربیت کی طرف دھیان بلکہ توجہ زیادہ دینی ھوگی ۔بچیاں تو گھروں پر ہوتی ہیں ان سے گھروں کا کام لیتی ہیں ماٸیں مگرلڑکے زیادہ وقت گھر سے باہر دوستوں کے ساتھہ تو ان کی کمپنی پر نظر رکھنا اور خود سے بہن واگدہ اور عرت کی عزت واحترام سیکھانا بہت ضروری ھو گیا ھے۔

اخبارات اور رساٸل میں عریاں تصویرں اور ٹی ۔۔وی پر حیا سوز ڈرامے رشتوں کے تقدس کی پامالی بہن بھاٸ اورپڑی عمر کی خواتین کے منفی کردار پر ڈرامے مرد اور عورت کے ریلیشن ڈیٹ و شراب نوشی عام دکھاٸ جارھی ہے ۔جھو ٹے اور کم تعلیم یافتہ اور ھاٸ کلاس طبقہ جو دین سے دور ھے وہ شیطان کے بہکاوے یا اس کا شکار ھوتے ھیں اب ھماری حکومت نے جو مدینہ ثانی کے دعوے پر اقتدار حاصل کیا ۔انہوں نی نبی کریم ؐ کے قوانین ابھی تک کیہں نہیں نافذ کیے ۔اسلام اور ھمارا ایمان کلمہ طیبہ کے بعد حیا کے ستون پر کھڑا ہے ھر عمل میں حیا اور تزکیہ نفس پر گرفت کرنا ہے۔

حدیث ھے ”کہ حیا نہ کرو تو جو چاھے کرو ۔ مگر اسلام میں من مانی نہیں ھی آخرت میں ھر عمل کی پکڑ اور سزاو انجام ۔ ھے ۔ “۔عدل وانصا ف قصاص پر ھے ۔زانی اور قاتل کی سزا ۓ موت کا قانون ھونا چاہیے ۔۔سرعام تاکہ عبرت حاصل ہو دوسروں کو ۔ختم نبوت اور توھین رسالت اور خلفا۶ کا احترام کا قانون اور سزا ھونی چاھیے ۔١٩٧٤ کے قانون پر عمل درآمد ھونا چاھیے ۔ ختم نبوت کے قانون پر یہ کام حکمران کا ھونا چاھیے کے عوام اس کے رعاایا ھے ۔قیامت کے دن ان سے ان کی رعایا کے بارے مں پوچھا جاۓ گا جہنم میں سب سے پہلے حکمران جھونکے جاٸیں گے جیسے رعایا ویسے حکمران ان کے طبقے میں کیا ھو رھا ہے درپردہ کیوں نہیں عملی قدم اٹھاتے یہ لوگ کیا یہ بچے اور خواتین ان کے خاندان سے بھی کھبی ھو سکتے ھیں گلا خلفا۶ ۔اسلامی ریاست میں حیا سوز واقعات ھو رھے ھیں۔

ھم مغرب اور ہندووں کو کہتے ھیں وہاں عورت محفوظ نہیں کیا اب ھماری خواتین بچےبچیاں محفوظ ھیں معصوم بچوں کے ذھن پر کیا نقوش چھوڑے ھونگے ایسے حادثات اور میڈیا میڈیا نے وسے تباھی مچادی ھے ۔ قوانین زندگی معاشرت اور اسلامی معاشرے کی اقتدار اور اخلاق کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ۔بڑوں سے سنا تھا کے قیامت کے قریب روز نۓفتنی سر اٹھاٸیں گے اور بے حیاٸ عام ھوجاۓ گی گھر گھر ناچ کانا ھو گا ۔اب اس کے کام کےلیے پرنٹ الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا ھے تعلیم سمارٹ موباٸل پر آگی تعلیمی اداریے بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں بدکاری کے لیے ںہاں کھلے عام دعوت دی جاتی ھے ۔ھم کیا لو ط کی قوم پیچھے رہ گیے ھیں ۔۔۔۔؟ اب ھمیں اپنے لڑکوں کی تربیت کی طرف دھیان بلکہ توجہ زیادہ دینی ھوگی۔

بچیاں تو گھروں پر ہوتی ہیں ان سے گھروں کا کام لیتی ہیں ماٸیں مگرلڑکے زیادہ وقت گھر سے باہر دوستوں کے ساتھہ تو ان کی کمپنی پر نظر رکھنا اور خود سے بہن واگدہ اور عرت کی عزت واحترام سیکھانا بہت ضروری ھو گیا ھے ۔اخبارات اور رساٸل میں عریاں تصویرں اور ٹی ۔ وی پر حیا سوز ڈرامے رشتوں کے تقدس کی پامالی بہن بھاٸ اورپڑی عمر کی خواتین کے منفی کردار پر ڈرامے مرد اور عورت کے ریلیشن ڈیٹ و شراب نوشی عام دکھاٸ جارھی ہے۔

جھو ٹے اور کم تعلیم یافتہ اور ھاٸ کلاس طبقہ جو دین سے دور ھے وہ شیطان کے بہکاوے یا اس کا شکار ھوتے ھیں اب ھماری حکومت نے جو مدینہ ثانی کے دعوے پر اقتدار حاصل کیا ۔انہوں نی نبی کریم  ؐ کے قوانین ابھی تک کیہں نہیں نافذ کیے ۔اسلام اور ھمارا ایمان کلمہ طیبہ کے بعد حیا کے ستون پر کھڑا ہے ھر عمل میں حیا اور تزکیہ نفس پر گرفت کرنا ہے ۔ حدیث ھے ”کہ حیا نہ کرو تو جو چاھے کرو ۔ مگر اسلام میں من مانی نہیں ھی آخرت میں ھر عمل کی پکڑ اور سزاو انجام ۔ ھے ۔ “۔عدل وانصا ف قصاص پر ھے۔

زانی اور قاتل کی سزا ۓ موت کا قانون ھونا چاہیے ۔۔ سرعام تاکہ عبرت حاصل ہو دوسروں کو ۔ختم نبوت اور توھین رسالت اور خلفا۶ کا احترام کا قانون اور سزا ھونی چاھیے ۔١٩٧٤ کے قانون پر عمل درآمد ھونا چاھیے ۔ ختم نبوت کے قانون پر یہ کام حکمران کا ھونا چاھیے کے عوام اس کے رعاایا ھے۔ قیامت کے دن ان سے ان کی رعایا کے بارے مں پوچھا جاۓ گا جہنم میں سب سے پہلے حکمران جھونکے جاٸیں گے جیسے رعایا ویسے حکمران ان کے طبقے میں کیا ھو رھا ہے درپردہ کیوں نہیں عملی قدم اٹھاتے یہ لوگ کیا یہ بچے اور خواتین ان کے خاندان سے بھی کھبی ھو سکتے ھیں۔