جاگ مسلماں جاگ ۔۔۔

ویسے تو آئے روز ہی کوئی  ایسی خبر سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے  دل و دماغ ماؤف ہوجاتے ہیں۔ دل جانے انجانے خوف میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ اور مستقبل کے خطرات  کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔آج  پھر ایک بار یورپ کے ملک ناورے کے بعد سوئیڈن  میں  قرآن مقدس کے اوراق جلانے کا  واقعہ پیش آیا ۔ یہ واقعہ سوئیڈن کے شہر مالمومیں جمعہ 29 اگست کا صبح کے وقت پیش آیا جب انتہائی متعصب دائیں  بازو کی ایک تنظیم  اسٹریم کرس نے   اپنے سربراہ   متعصب پلودن کو اس اجتماع میں  آنے کی  حکومت کی طرف سے لگائ گئی پابندی کے باوجود سر عام یہ گھناؤنی حرکت کی  جس کا فوری رد عمل یہ آیا کہ آس پاس کے تارکین وطن مسلمانوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تنصیباب کو آگ لگائی اور توڑپھوڑ کی جب کہ پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج  کی رسم  سوئیڈن کے سفارتخانے میں ادا کی گئی ۔

اس طرح کی رسمیں  ماضی میں بھی اس طرح کی ذلیل حرکتوں پر  حکومت ادا کرتی رہی ہے ۔ بلکہ یہاں بھی جس نے رسالت مآب ؐ کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے ۔ وہ تمام احتجاج کے باوجود  ڈھٹائی کے ساتھ ملک سے باہر بھیجا جاچکا ہے ۔ اور شان رسالت پر جان دینے والے  ناموس رسالت ؐ کے پروانے شان سے پھانسی کے پھندے کو چوم گئے۔ اس طرح کی کاروائیوں پر ماضی کی حکومتوں اور اس وقت کی حکومت   کو ئی اختلاف نہیں ہے ۔یہ آئندہ   بھی اسی طرح کی روش جاری رکھیں گے اس لیے جاگ مسلماں جاگ———–

13 اگست 2020کا دن ایک اور سیاہ دن کا اضافہ ہے کہ جب متحدہ عرب امارات نے باقاعدہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا ۔اور آج یہ بھی خبر آئی کہ  امارات نے ہر طرح کی  بائیکاٹ جوکہ اب تک اسرائیل کے خلاف امارات نے کررکھا تھا  اس کو ختم کردیا ہے اور  دونوں ملکوں کے درمیاں تجارتی ا،اقتصادی اور فضائی تعلقات  ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اور اب  پیر سے فضائی سفر  کے لیے فلائیٹ روانہ ہوئی ہے۔  یو ں تو پہلے  بھی عرب ممالک اسرائیل  کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ  تعلقات  قائم کرنے کے لیے خاصے بے چین تھے۔ عرب دنیا کو امارات نے  اسرائیل کو تسلیم کرکے تقسیم کرنے کی ایک  کوشش کی ہے اور اب عرب دنیا تقسیم ہوچکی ہے ۔

بہت  سارے سہانے خواب اسرائیل نے عربوں کو دکھائے ہیں جس میں سے ایک سہانہ خواب ۔۔۔اسرائیل   اپنے آپ کو تسلیم کرنے والے ممالک کو یہ دکھارہا ہے کہ جو ملک اس کو تسلیم کرے گا  اس کے لوگ بیت المقدس میں نماز ادا کرسکیں گے۔ حالانکہ  مسجد بیت المقدس اردن کے زیر انتظام ہے اسرائیل  کس بنیاد پر یہ حق  دے رہاہے یہ سمجھ سے بالا تر ہے  ۔ اسرائیل ایک نظریاتی مملکت ہے جو کہ ایک خاص نظریہ کی بنیاد پر  عربوں کے قلب میں ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرکے بنائی گئی ہے ۔اور آئے دن وہ اپنی نظریاتی سرحدوں  کی توسیع کررہے ہیں ۔

جب 1977میں  صدر انور سادات کی قیادت میں  مصرنے اسرائیل کو تسلیم کیا تو مصر میں سفارت خانے کے قیام  کے لیے دریائے نیل کے کنارے  سفارت خانے کے قیام کے لیے جگہ دی گئی وہاں پہلے سے دیگر ممالک کے سفارت خانے موجود تھے  مگر  اسرائیل نے یہ کہ کر صاف منع کردیا کہ اسرائیل کی نظریاتی سرحدیں دریائے نیل تک ہیں ۔ اپنے ہی ملک کے سرحد کے اندر کس طر ح سفارت خانہ قائم کیا جاسکتاہے ؟ بلکہ دریائے نیل کے اس پار سفارت خانے کے لیے جگہ دی جائے ۔ یہ اقدام اسرائیل کی توسیع پسندان ذہن کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے پاس ظلم اور جبر کا ایک باقاعدہ منصوبہ ہے جس کے زریعے وہ عربوں کو ان کی زمینوں سے بیدخل  کریں گے اس لیے ضروری ہے کہ جاگ مسلماں  جاگ۔۔۔۔

گذشتہ  کئی سالوں سے عرب  اور ہندوستان کی ہر سطح پر تعلقات مضبوط ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ تعلقات  معاشی ، اقتصادی  اور ان ممالک کے درمیان تجارتی بنیادوں پر ہے ۔ان عرب ممالک میں سعودی حکومت بھی شامل ہے کہ جس نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا ہے حرمیں شریفین کی وجہ سے آج بھی سعودی عرب کو تمام غیر عرب ممالک میں بھی ایک عزت و احترام کا مقام حاصل ہے   وہ آج بھی  سعودی عرب کو مسلم دنیامیں قیادت کے مقام پر دیکھتے ہیں ۔مگر یہ دیکھنے میں آرہا ہے  کہ سعودی عرب مسلم دنیا کے مسائل  سے چشم پوشی    اور غیر دلچسبی کا رویہ اختیار کررہا ہے ۔ ایسے ممالک جو براہ راست مظالم ڈھا رہے ہیں  ان مسلمان ممالک پر یا ان آبادیوں   پر کہ جہا ں مسلمان آباد ہیں  مثال کے طور پر کشمیر ، فلسطین اور برما وغیرہ  ۔ایک طرف بابری مسجد شہید کی جاتی ہے تو دوسری طرف متحدہ عرب  امارات میں  مندر کی تعمیر کی جاتی ہے ۔ جبکہ اللہ تعالٰی نے قرآن میں یہ صاف فرمادیا ہےکہ ” اے ایمان والوں ! یہود نصاریٰ کو ہرگز دلی دوست نہ بناؤ” یہ صورتحال  ہمیں جھنجھوڑ رہےہیں کہ جاگ مسلماں جاگ۔۔۔۔۔

پاکستان کے اندر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو کہ عرصہ دراز  سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین ہے اور اس طرح کے شوشے چھوڑتارہتا ہے ان ایجنٹوں کی ملاقات کی خبریں ملتی رہتی ہے جو یہ بیرون ممالک میں یہودی آقاؤں سے کرتے رہے ہیں اور ان سے ڈکٹیشن  لیتے رہتے ہیں ۔یہ دین بیزار اور لبرل طبقہ ہے ۔ یہ دین بیزار اور لبرلز نے پہلے کچھ اسلام اور پاکستان کی خدمت کی ہے اور نہ اب کسی کام کے ہیں اس لیے جاگ مسلماں جاگ۔۔۔۔