تنبیہ

بچوں کے کان کھینچے تھے۔پٹائی بھی لگانے والی تھی۔لیکن کنٹرول کیا۔ان کانوں کے کھینچنے میں ہی بچے رو دیے۔دراصل وجہ یہ تھی کہ بچوں کو جن کاموں سے منع کیا تھا۔وہی کیے جارہے تھے۔اور جس کام کو کہتی اس پر عذر تراشتے ۔وہ کام کرنا ہی نہیں  چاہتے۔

اور اب جب یہ کان لال ہوئے تو بچوں نے بھی رونا شروع کیا اور ماں کو ہوا کہ جب منع کر رہی تھی کہ یہ نہ کرو اور تم کیے جارہے تھے تو مجھے غصہ تو آنا تھا نا!!!!!!ناراض تو ہونا تھا نا!!!!!!

کہ میں جانتی ہوں کہ اس کام کو اور اس کام کو کرنے میں تمھارا نقصان ہے۔یہ تمھارے لیےفائدہ مند نہیں ۔پریشانی اٹھانی پڑے گی۔تو آگے کے لیےمشکل ہوجائے گی۔اسی لیے  تنبیہ کی ہے۔

اور مجھے یہ کان کھینچنا اور پھر بچوں کا رونا بلکل بھی اچھا نہ لگا تھا۔یہ میں نے خوشی خوشی نہ کیا تھا۔یہ کرنے کے بعد میں کوئ فرحت محسوس نہیں کر رہی تھی۔

اور اس وقت مجھے نہ جانے کیوں یہ اپنا ڈوبتا شہر بھی یاد آرہا تھا اور ملک کے باقی پانی میں ڈوبے اضلاع و علاقے بھی اور  میں سوچ رہی تھی کہ میرے رب نے جو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے اُس نے بھی یہ اتنی بارشیں برسائیں تو اُن کی ضرورت ہوگی۔ہم بھی تو اپنے اس پیدا کرنے والے کی اتنی زیادہ نافرمانیاں کرتے جارہے تھے۔جو کرنے کے کام تھے وہ نہ کرتے اور جس سے اُس پیدا کرنے والے نے منع کیا وہی کرتے ۔چاہے وہ لڑکوں کا غیر محرم لڑکیوں سے تیار ہونا ہو یا مخلوط محفلیں ہوں

ناچ گانا ہو کہ فحاشی و عریانی اور بھی نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔

تو میرے رب نے یہ گرج چمک والی بارشیں اسلیے کی ہوں کہ ہم سُدھر جائیں ۔پلٹ آئیں ۔اپنی اصلاح کر لیں ۔

کہ اُُن تمام احکامات جنھیں کرنے کا حکم دیا گیا اُس میں ہمارا بھلا ہے ۔اور جن سے منع کیا گیا اُن میں ہمارا نقصان ہے۔

کہ “وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے”۔

کہ میں نے آج کان خوشی سے نہ کھینچے تھے۔ضرورت تھی۔تو شاید ہمیں بھی ان بارشوں تو گرج چمک کے ساتھ تنبیہ کی گئ ہے۔کہ “پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف”۔